ماسٹر رام چندر: صحافی اور ایک علمی شخصیت کا تذکرہ
ماسٹر رام چندر کا تذکرہ آج شاذ ہی کسی کتاب، کسی رسالہ میں پڑھنے کو ملتا ہے، لیکن آج بھی نوجوان نسل کو علمی میدان میں ان کے کارناموں سے روشناس کروانے کی ضرورت ہے۔ وہ متحدہ ہندوستان کے معروف صحافی، ایک ریاضی داں، معلّم اور محقق بھی تھے۔ رام چندر نے الجبرا اور علمِ […]
ماسٹر رام چندر کا تذکرہ آج شاذ ہی کسی کتاب، کسی رسالہ میں پڑھنے کو ملتا ہے، لیکن آج بھی نوجوان نسل کو علمی میدان میں ان کے کارناموں سے روشناس کروانے کی ضرورت ہے۔ وہ متحدہ ہندوستان کے معروف صحافی، ایک ریاضی داں، معلّم اور محقق بھی تھے۔ رام چندر نے الجبرا اور علمِ مثلث پر وقیع مضامین سپردِ قلم کیے اور کئی مقالے لکھے جو اس دور کے مشہور رسائل میں شایع ہوئے۔
رام چندر کی دو تصنیفات کا برطانیہ میں بھی چرچا ہوا اور حکومت نے ان کی گراں قدر علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انعام و اکرام سے نوازا۔ کائنات اور علمِ ہیئت بھی ماسٹر رام چندر کی دل چسپی کا میدان تھا۔ اس سلسلہ میں ان کے ایک مضمون اور اس پر ضمیمہ کو ہندوستان بھر میں شہرت ملی تھی۔
رام چندر ہریانہ کے مشہور علاقہ پانی پت کے ایک ہندو گھرانے میں 1821ء میں پیدا ہوئے اور 11 اگست 1880ء کو وفات پاگئے۔ وہ شروع ہی سے سائنس اور علمی موضوعات میں دل چسپی رکھتے تھے۔ رام چندر خوب صورت طرزِ نگارش کے حامل تھے۔ وہ تعلیمِ نسواں کے بڑے حامی ہی نہیں تھے بلکہ قوتِ سماعت و گویائی سے محروم افراد کی تربیت اور تعلیم کو بھی ضروری خیال کرتے تھے۔ ان کے والد رائے سندر لال ماتھر محکمۂ مالیات میں ملازم تھے۔ بارہ برس کی عمر میں رام چندر انگریزی مدرسے میں داخل ہوئے، بعد میں دہلی کالج میں داخلہ لیا اور وہاں اپنی قابلیت کی وجہ سے وظیفہ پایا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد رام چندر اسی کالج میں مدرس ہو گئے اور اردو میں الجبرا اور علمِ مثلث پر کتابیں لکھیں۔ 1854ء میں انھوں نے ہندو مذہب ترک کیا اور عیسائی مذہب کو اپنا لیا جس پر ان کے خاندان اور دوسرے لوگوں نے ان سے قطع تعلق کرلیا تھا۔
ان کی دو کتابوں کی شہرت انگلستان تک پہنچی اور ایک کتاب کے لیے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی کورٹ آف ڈائریکٹرز نے ایک خلعت پنج پارچہ اور دو ہزار روپیہ نقد عطا کیا۔ وہ ہندوستان میں 1845ء میں ان کا ایک پندرہ روزہ علمی اخبار فوائد الناظرین اور 1847ء میں ایک علمی اور ادبی ماہنامہ محبِّ ہند جاری ہوا۔ پھر غدر مچ گیا اور اس دوران میں رام چندر نے چھپ چھپا کر زندگی بسر کی۔ تاہم غدر کے بعد اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ روڑکی میں ایک بڑے تعلیمی ادارے سے منسلک رہنے کے بعد دہلی آئے تو یہاں ڈسٹرکٹ اسکول کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوگئے اور اسی منصب سے خرابیِ صحت کی بنا پر سبک دوش ہوئے۔
ماسٹر صاحب نے راجا مہندر سنگھ کے اتالیق کی حیثیت سے ریاست پٹیالہ کے دربار میں ملازمت بھی کی اور ریاست پٹیالہ میں سر رشتہ تعلیم کا قیام عمل میں آیا تو رام چندر اس کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ان کے دورِ ملازمت میں پٹیالہ میں تعلیم کو بہت فروغ ملا۔
رام چندر کی صحت کبھی اچھی نہ رہی تھی۔ وہ چالیس برس کے تھے جب خرابیِ صحت کی بنا پر پنشن کی درخواست دے دی تھی۔ رفتہ رفتہ صحت گرتی ہی گئی اور ان کا انتقال ہوگیا۔
کائنات سے متعلق رام چندر کے سوالات اور ان کی فکر ملاحظہ کیجیے۔
"اس عاصی نے شائقینِ علمِ ہیئت سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا باعث ہے کہ چاند گرہن بہ نسبت سورج گرہن کے تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں، لیکن اب تک کسی نے جواب اس سوال کا نہ دیا۔ پس یہ احقر اس کا جواب خود لکھتا ہے….۔”
"واضح ہو کہ چاند ایک جسم نورانی بالذّات نہیں ہے بلکہ جو روشنی اس پر نظر آتی ہے وہ اس پر آفتاب سے آتی ہے۔ پس ظاہر ہے کہ اگر کوئی شے چاند اور سورج کے مابین آجائے تو چاند پر تاریکی ہو جائے گی اور اس تاریکی کو گرہن کہتے ہیں۔
پس اب دیکھنا چاہیے کہ چاند گرہن کی صورت میں کون سی شے حائل چاند اور آفتاب میں ہو جاتی ہے۔ واضح ہو کہ شے مذکور کرّۂ زمین ہے کہ جب یہ چاند اور سورج کے بیچ میں آتی ہے، اس وقت روشنی آفتاب کی چاند پر گرنے سے موقوف ہو جاتی ہے۔ اس کا خیال شکل ذیل کے ملاحظہ کرنے سے خوب اچھی طرح سے دل میں آجائے گا۔
چاند گرہن کے نقشے سے واضح ہے کہ جس وقت زمین ٹھیک مابین آفتاب اور چاند کے ہوتی ہے اس وقت پرچھائیں یعنی سایہ زمین کا اوپر چاند کے گرتا ہے اور چوں کہ زمین نسبت چاند کے بہت بڑی ہے، اس، واسطے اس کا سایہ بھی بڑا ہے۔ یہاں تک کہ جس وقت چاند زمین کے سایہ میں آجاتا ہے تو تھوڑی دیر کے بعد اسے طے کر کے وہ نکلتا ہے اور شکل سے واضح ہے کہ چاند گرہن اس خلقت کو جو اس نصف کرّۂ زمین پر رہتے ہیں، جو سامنے چاند کے ہیں نظر آئے گا یعنی جن کو کہ چاند اس وقت نظرآنا ہوگا ان کو اس کا گرہن بھی دکھائی دے گا۔
پس یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ سارے چاند گرہن نظر آتے ہیں، لیکن سورج گرہن کی صورت میں یہ نہیں ہوتا اور اس کا باعث یہ ہے کہ جس وقت کہ چاند ٹھیک مابین زمین اور آفتاب کے آتا ہے اس وقت چاند کے حائل ہونے سے روشنی آفتاب کی زمین تک نہیں پہنچتی ہے لیکن چاند ایک چھوٹا کرّہ ہے اور اس کی پرچھائیں یعنی سایہ اس قدر بڑا نہیں ہوتا کہ ساری زمین کو گھیر لے یعنی ساری زمین پر سایہ کردے فقط ایک تھوڑا حصہ کرّۂ زمین کی تاریکی میں آتا ہے اور باقی پر روشنی بدستور قائم رہتی ہے۔
یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورج گرہن سب خلقت کو نظر نہ آوے (آئے) یعنی بعض جائے (جگہ) وہ دکھائی دیتا ہے اور بعض جائے نہیں۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سورج گرہن فقط کسی جائے سمندر میں دکھلائی دے سکتا ہے اور چوں کہ وہاں کوئی آدمی نہیں ہوتا تو اس گرہن کی کسی کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ پس معلوم ہوا کہ باعث سورج گرہن کے کم ہونے کا یہ ہے کہ وہ سب مقاموں پر نظر نہیں آتے۔ سورج گرہن کے کم واقع ہونے کی ایک خوب مثال یہ ہے۔
واضح ہو کہ بادل زمین سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور اسی واسطے ان کا سایہ ساری زمین پر نہیں ہو سکتا ہے۔ تھوڑی سی دور تک ان کا سایہ ہوتا ہے اور باقی مقاموں سے آفتاب بخوبی نظر آتا ہے اور وہاں دھوپ کھلی ہوتی ہے۔ یہی حال سورج گرہن کا ہے کہ چاند مانند ایک نہایت بڑے بادل کے ہے لیکن تب بھی زمین سے چھوٹا ہے اور اس باعث سے اس کا سایہ آفتاب کو ساری زمین سے نہیں چھپا سکتا ہے یعنی گرہن سورج کا سارے نصف کرّۂ زمین پر نظر نہیں آتا ہے۔”
آپ کا ردعمل کیا ہے؟