سڑک اور پگڈنڈی (ایک دل چسپ کہانی)

ایک گاؤں تھا۔ گاؤں کے قریب سے ایک سڑک گزرتی تھی جو گاؤں کو شہر سے جوڑتی تھی۔ سڑک پکی، ڈامر کی تھی۔ باقاعدہ پلان کر کے ماہر انجینئروں نے بنائی تھی۔ چھوٹی موٹریں، بیل گاڑیاں، تانگے، سائیکلیں سب اس پر سے گزرتی تھیں۔ سڑک کو اپنے کارآمد ہونے پر بہت غرور تھا۔ سڑک کے […]

 0  3
سڑک اور پگڈنڈی (ایک دل چسپ کہانی)

ایک گاؤں تھا۔ گاؤں کے قریب سے ایک سڑک گزرتی تھی جو گاؤں کو شہر سے جوڑتی تھی۔ سڑک پکی، ڈامر کی تھی۔ باقاعدہ پلان کر کے ماہر انجینئروں نے بنائی تھی۔ چھوٹی موٹریں، بیل گاڑیاں، تانگے، سائیکلیں سب اس پر سے گزرتی تھیں۔ سڑک کو اپنے کارآمد ہونے پر بہت غرور تھا۔

سڑک کے پاس سے ایک پگڈنڈی بھی گزرتی تھی۔ پگڈنڈی سڑک کی طرح شاندار نہیں تھی۔ بس ایک اوبڑ کھابڑ راستہ تھا جس پر اسے گزر کر گاؤں والے اپنے اپنے گھروں یا کھیتوں میں جاتے، جنگل میں لکڑیاں توڑنے، مہوا چننے جاتے، اسے کسی نے باقاعدہ بنایا نہیں تھا۔ بس لوگ چلنے لگے، پگڈنڈی بنتی گئی۔ کافی آگے جاکر یہ پگڈنڈی چھوٹی چھوٹی اور کئی پگڈنڈیوں میں منقسم ہو جاتی تھی۔

پگڈنڈی کہیں سڑک کے متوازی چلتی، کہیں اس سے دور چلی جاتی اور پھر گھوم گھام کر سڑک کے بازو سے چلنے لگتی۔ ایک روز مغرور سڑک نے اس سے کہا: ’’تم میرے ساتھ چلتی ہوئی بالکل اچھی نہیں لگتی، میں چوڑی کشادہ، کو لتار سے چمکتی ہوئی، تم پتلی، اوبڑکھابڑ، بے رنگ، بے چمک‘‘

پگڈنڈی کیا کہتی، بات تو صحیح تھی۔ سڑک نے پھر کہا، ’’نہ جانے لوگ تمہیں کیوں پسند کرتے ہیں؟ منزل تک جانے کے لئے تمہارا سہارا لیتے ہیں۔‘‘

پگڈنڈی نے خاموشی ہی مناسب سمجھی، کہتی بھی تو آخر کیا کہتی؟ اس کی خاموشی، سڑک کو اکھر گئی، تیز ہوکر بولی۔

’’میری بات کیا تمہاری سمجھ میں نہیں آ رہی ہے؟ آخر میرے آزو بازو تم جیسی مریل اوبڑ کھابڑ پگڈنڈیوں کے جال کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

پگڈنڈی کو اپنی خاموشی توڑنی پڑی، بولی، ’’میری بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ گاؤں والے مجھے اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں؟ پہلے ایک دو لوگ گزرتے تھے۔ اب تو میں دن رات مصروف رہتی ہوں۔ بغیر کسی منصوبہ کے میں وجود میں آ گئی۔‘‘

’’اور کیا؟ بغیر کسی منصوبے کے بنی ہو اسی لئے نہ خوبصورت ہو نہ چست درست۔ مجھے دیکھو سرکار نے باقاعدہ منصوبہ بنا کر بڑی رقم خرچ کر کے مجھے بنایا ہے۔ پھر کیڑے مکوڑوں اور تمہاری طرح میں اپنے آپ نہیں بن گئی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ انجینئروں کے ہنر کی مثال ہوں میں۔ سیکڑوں کاریگروں کی محنت کا ثمر ہوں میں، ضرورت کے تحت بنی ہوں، سرکار کے خوابوں کی تعبیر ہوں میں۔‘‘

’’ضرورت کے تحت تو میں بھی بنی ہوں سڑک بہن۔‘‘ پگڈنڈی نے پہلی مرتبہ سڑک کی مخالفت کی۔ اب تک وہ اس کی لن ترانیاں خاموشی سے سنتی آئی تھی۔ ’’جہاں تم کام نہ آؤ وہاں میں کام آتی ہوں، اور مجھ سے کام لیا بھی جاتا ہے۔ جہاں تلوار کام نہ دے وہاں سوئی کام آتی ہے۔ میری ضرورت تھی اور رہے گی۔‘‘

’’کیا کہا تم نے؟‘‘ سڑک چراغ پا ہو کر بولی، ’’جہاں میں کام نہ آؤں وہاں تم کام آتی ہو؟ میری برابری کرنے چلی ہو؟ اپنی شکل تو دیکھو۔‘‘

اسی وقت ایک بڑی لاری سڑک پر آکر رک گئی۔ دراصل سامنے سڑک پر ایک پل تھا جس کی مرمت کا کام چل رہا تھا اور وزنی ٹرکوں اور بسوں کی اس پل پر سے گزرنے کی ممانعت کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ ڈرائیور اور کنڈکٹر لاری سے نیچے اترے، ان کے پیچھے تمام مسافر۔ دیکھتے دیکھتے تمام مسافروں نے پگڈنڈی کا رخ کیا۔ پگڈنڈی پل کے نیچے سے گزر کر پکی سڑک سے مل جاتی تھی۔ مسافروں کے نیچے اترتے ہی ڈرائیور لاری کو سنبھال کر پل کے پار لے گیا، مسافر پگڈنڈی سے ہو کر لاری تک پہنچے اور لاری آگے روانہ ہو گئی۔

سڑک جو کچھ دیر پہلے بڑھ چڑھ کر باتیں کر رہی تھی، ندامت سے بولی ’’بہن پگڈنڈی! مجھے معاف کر دو۔‘‘

’’سڑک بہن!‘‘ پگڈنڈی نے خوش دلی سے کہا۔ ’’اس میں معافی کی کیا بات ہے؟ کبھی کبھی معمولی سی بات سمجھ میں دیر سے آتی ہے۔ اس واقعہ نے یہ تو سمجھا دیا کہ پکی سڑک جہاں کام نہ آئے وہاں کچی اوبڑکھابڑ پگڈنڈی کیسے کام آتی ہے۔ اور وہاں میں اتنا ضرور کہوں گی کہ ہر جگہ ہر وقت بڑی بڑی ہی چیزیں کارآمد ثابت ہوں، یہ ضروری نہیں ہے۔ اپنی بساط بھر ہر کوئی دوسروں کے کام آنا چاہتا ہے۔ یہی زندگی ہے۔‘‘

(مصنّف:‌ بانو سرتاج)

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow