سائنس دانوں نے پودوں کے جینیاتی کوڈ کے 1 ارب سے زائد حروف کی مدد سے ناقابل یقین کارنامہ انجام دے دیا

279 سائنس دانوں نے جینیاتی کوڈ کے 1 ارب سے زائد حروف کی مدد سے پھولدرا پودوں کا ناقابل یقین ’ٹری آف لائف‘ بنا کر دنیا کو حیران کر دیا۔ جریدے نیچر میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ اسٹڈی کے مطابق 279 سائنس دانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے 9,500 سے زیادہ پھولدار پودوں […]

 0  3
سائنس دانوں نے پودوں کے جینیاتی کوڈ کے 1 ارب سے زائد حروف کی مدد سے ناقابل یقین کارنامہ انجام دے دیا

279 سائنس دانوں نے جینیاتی کوڈ کے 1 ارب سے زائد حروف کی مدد سے پھولدرا پودوں کا ناقابل یقین ’ٹری آف لائف‘ بنا کر دنیا کو حیران کر دیا۔

جریدے نیچر میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ اسٹڈی کے مطابق 279 سائنس دانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے 9,500 سے زیادہ پھولدار پودوں کی نسلوں (species) کے جینیاتی کوڈ کے 1.8 بلین حروف کا استعمال کرتے ہوئے ایک حیرت انگیز ’ٹری آف لائف‘ تشکیل دیا ہے۔

بہت بڑا کارنامہ

اس ’شجر حیات‘ کا استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر کے ماہرین حیاتیات و نباتات کو یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ پھولدار پودوں نے لاکھوں برس میں کیسے ارتقا کیا، اور زمین پر اس نے دیگر نباتات کے مقابلے میں کس طرح ماحولیاتی غلبہ حاصل کیا۔ واضح رہے کہ صرف پھولدار پودے زمین پر تمام معلوم پودوں کا تقریباً 90 فی صد ہیں اور عملی طور پر کرہ ارض پر ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔

یہ ایک ایسا عظیم اور حیرت انگیز ڈیٹا ہے جس تک دنیا بھر کے سائنس دانوں کو کھلی رسائی حاصل ہوگی، اور وہ اسے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) کے ساتھ جوڑ کر یہ اندازہ لگانے کے قابل ہو جائیں گے کہ کون سے پودوں کی نسلوں میں شفا بخش (medicinal) خواص والے مالیکیولز موجود ہو سکتے ہیں۔

اس ٹری آف لائف (شجر حیات) کی مدد سے اس بات کی پیش گوئی بھی کی جا سکے گی کہ مستقبل میں کیڑے اور بیماریاں کس طرح پودوں کو متاثر کریں گی، اور ان بیماریوں کو بہتر طور پر سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔

حیرت انگیز طور پر وسیع تحقیق

یہ تحقیق رائل بوٹینک گارڈنز، کیو، لندن کے سائنس دانوں کی سربراہی میں کی گئی، جس میں بین الاقوامی سطح پر 138 تنظیموں نے حصہ لیا، اور اس ’ٹری آف لائف‘ کی تشکیل اس سے قبل ہونے والے تقابلی مطالعہ جات سے 15 گنا زیادہ ڈیٹا کی مدد سے کی گئی ہے۔ اور اس مقصد میں پھولدار پودوں کی جن نسلوں کا استعمال کیا گیا ہے، ان میں سے 800 سے زیادہ نسلیں ایسی ہیں جن کا ڈی این اے پہلے کبھی کسی تحقیق کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

اس تحقیق میں شامل سائنس دانوں نے کہا ہے کہ انھوں نے جو ڈیٹا ترتیب دیا ہے، اس کی مدد سے پھولدار پودوں کی نئی نسلیں شناخت کی جا سکیں گی، پودوں کی جو درجہ بندی ہوئی ہے اسے مزید بہتر بنایا جا سکے گا، نئے ادویاتی مرکبات دریافت کیے جا سکیں گے، اور موسمیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) اور حیاتیاتی تنوع کے خاتمے (biodiversity loss) کی صورت میں پودوں کو محفوظ کیا جا سکے گا۔

پھولدار پودوں کا عظیم شجر حیات

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس ’شجر حیات‘ میں حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے زبردست وسعت موجود ہے، یہ اتنا وسیع ہے، اور اس میں اتنے زیادہ اور متنوع پھولدار پودے شامل کیے گئے ہیں، کہ جس طرح کسی مخصوص عرصے سے متعلق جدول (periodic table) میں ایک عنصر کی پوزیشن کی بنیاد پر اس کے خواص کی پیشگوئی کی جا سکتی ہے، اسی طرح اس ’ٹری آف لائف‘ میں کسی پھولدار پودے کی نسل کی لوکیشن سے محققین اس کی خواص کی پیشگوئی کر سکیں گے۔

اس تحقیق کے ذریعے جو ڈیٹا جمع کیا گیا ہے، اسے پروسیس کرنے میں ایک واحد کمپیوٹر کو 18 سال لگیں گے۔ اسے پھولدار پودوں کی تمام 3 لاکھ 30 ہزار معلوم نسلوں کے لیے ’ٹری آف لائف‘ کی تشکیل کی طرف ایک بہت بڑا قدم قرار دیا گیا ہے۔

محققین نے 2 اہم باتیں بتائیں

رائل بوٹینک گارڈنز کے ریسرچ فیلو الیگزینڈر زونٹینی نے کہا ’’لاکھوں ڈی این اے سیکوئنسز میں چھپی معلومات کو ڈی کوڈ کرنے کے لیے، ڈیٹا کی اس بے مثال مقدار کا تجزیہ کرنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ لیکن اس چلینج نے ہمیں پودوں کی ’ٹری آف لائف‘ کے بارے میں ہمارے علم کا ازسر نو جائزہ لینے اور اسے بڑھانے کا منفرد موقع بھی فراہم کیا، جس سے پودوں کے ارتقا کی پیچیدگی کی دریافت کے لیے ایک نئی کھڑکی کھل گئی ہے۔‘‘

ڈیپارٹمنٹ آف ایکولوجی اینڈ ایوولوشنری بائیولوجی میں پروفیسر اور اس ریسرچ کے شریک مصنف ماہر حیاتیات اسٹیفن اسمتھ نے کہا ’’جب بھی ہم جنگل میں جاتے ہیں تو پھولدار پودے ہمارا استقبال کرتے ہیں اور ہمیں کھانا کھلاتے ہیں، اور کپڑے پہناتے ہیں۔ ان پھولدار پودوں کا ’ٹری آف لائف‘ تشکیل دینا ایک ایسا چیلنج اور ہدف تھا جو ارتقائی حیاتیات کو ایک صدی سے زائد عرصے سے درپیش تھا۔ اب اس پروجیکٹ کی وجہ سے پھولدار پودوں کی زیادہ تر نسلوں پر مشتمل ایک وسیع ڈیٹا سیٹ فراہم ہو گیا ہے۔‘‘

ایک اور خصوصیت

پھولدار پودوں کے اس ٹری آف لائف کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں پودوں کے 200 فوسلز سے حاصل شدہ جینز کا ڈیٹا بھی شامل کیا گیا ہے۔ اور خشک کیے گئے ایسے پودوں کا ڈی این اے بھی حاصل کیا گیا جو چارلس ڈارون اور جوزف ہوکر نے اپنی تحقیق کے دوران محفوظ کیے تھے، اور ان کی زندگی میں ابھی ڈی این اے بھی دریافت نہیں ہوا تھا۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow