جب لیبیا کے مردِ آہن کرنل قذافی نے مہمانوں کے ہاتھ دھلائے!
عرب دنیا میں لیبیا کے کرنل معمر قذافی طویل ترین عرصے تک برسراقتدار رہنے والے راہ نما تھے۔ انھوں نے لیبیا میں بادشاہت کے خلاف بغاوت کرکے اقتدار سنبھالا تھا اور ستّر کی دہائی میں عرب قوم پرستی کا نعرہ بلند کر کے مقبول ہوئے۔ جب کہ مغربی دنیا میں ان کی شہرت ایک کڑے […]
عرب دنیا میں لیبیا کے کرنل معمر قذافی طویل ترین عرصے تک برسراقتدار رہنے والے راہ نما تھے۔ انھوں نے لیبیا میں بادشاہت کے خلاف بغاوت کرکے اقتدار سنبھالا تھا اور ستّر کی دہائی میں عرب قوم پرستی کا نعرہ بلند کر کے مقبول ہوئے۔ جب کہ مغربی دنیا میں ان کی شہرت ایک کڑے ناقد اور ہٹ دھرم اور ضدی عرب حکم راں کی حیثیت سے ہوئی۔
دوسری طرف قذافی لیبیا اور دنیا بھر میں اپنے عجیب و غریب طرزِ زندگی اور منفرد انداز کی وجہ سے بھی مشہور تھے۔ وہ اکثر طویل اور غضب ناک انداز میں خطاب کرتے، خیموں میں شب و روز گزارتے اور ان کا محافظ دستہ خوب صورت دوشیزاؤں پر مشتمل ہوتا۔ ان کی شخصیت کے انوکھے اور غیر معمولی پہلوؤں نے سبھی کی توجہ حاصل کرلی تھی اور یہ عجیب طرزِ حیات ان کی شناخت بن گیا تھا۔ قذافی سے متعلق کئی دل چسپ واقعات مشہور ہیں، جن میں کچھ حقیقی ہیں، اور بہت کچھ قصہ، افسانہ اور فرضی واقعات ہیں۔ یہاں ہم کرنل قذافی کے بارے میں کتاب بعنوان ’’امیر خسرو جرمنی میں‘‘ سے ایک دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں جس کے مصنف سائنسداں اور معلم ڈاکٹر مشتاق اسماعیل ہیں۔ وہ جرمنی اور بعد میں لیبیا میں کیمیا کے پروفیسر رہے۔ سائنسی درس و تدریس کے شعبہ میں اعلیٰ خدمات انجام دینے والے مشتاق اسماعیل کا تقرر بحیثیت پروفیسر لیبیا کی جامعہ الفاتح میں ہوا تھا۔ یہ 1979 کا زمانہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
’’جب ہم پہنچے تو وہ دوسرے مکانوں جیسا ہی ایک سادہ سا مکان تھا۔ میرے ایک ساتھی پروفیسر نے دروازے پر لگی گھنٹی بجائی، چند لمحوں بعد دروازہ کھلا تو میں نے دیکھا کہ کرنل قذافی سامنے کھڑے ہیں، میرے ساتھیوں نے مجھے نہیں بتایا تھا کہ کہاں جا رہے ہیں، خیر ہم اندر گئے۔ اندر سے بھی مکان ویسا ہی تھا۔ جیسے عام مکان تھے۔ ہر جگہ قالین بچھے ہوئے تھے اور کوئی ساز و سامان نہیں تھا۔ البتہ بیٹھک میں گاؤ تکیے بھی لگے ہوئے تھے۔
لیبیا کے مردِ آہن کرنل قذافی نے ہم سب کو بٹھایا اور کچھ ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں، پھر وہ اندر چلے گئے اور دستی تولیوں کا ایک بنڈل لیے اندر سے آئے۔ پھر قذافی صاحب ایک آفتابہ اور ایک سلفچی لے کر آئے اور باری باری ہم سب کے ہاتھ دھلانے لگے، جب وہ میرے پاس آئے تو میں نے ان سے عربی میں کہا ’’یا اخی! کہ اے میرے بھائی (لیبیا میں کرنل قذافی کو اخی کہہ کر بلایا جاتا تھا) میں غسل خانے میں ہاتھ دھو لیتا ہوں۔‘‘ کرنل قذافی نے کہا ’’نہیں، آپ میرے مہمان ہیں اور میرا فرض ہے کہ میں آپ کے ہاتھ دھلاؤں۔‘‘
خیر سب کے ہاتھ دھلانے کے بعد کرنل قذافی پھر اندر گئے اور ایک بڑے تشت میں کھانا لے کر آئے۔ ساتھ میں چھوٹی چھوٹی کٹوریوں میں زیتون ،کٹی ہوئی پیاز، اور دوسرے لوازم بھی تھے۔ سب لوگ مل کر اسی تشت میں کھانے لگے، اتنے میں کرنل قذافی کے ہاتھ ایک اچھی سی بوٹی آئی جو انھوں نے ہاتھ بڑھا کر میرے منہ میں ڈال دی۔ کھانا ختم ہوا تو کرنل قذافی نے برتن اندر پہنچائے اور پھر سب کے ہاتھ دھلائے۔ پھر چائے اور قہوہ کا دور چلا۔ اصل میں کرنل قذافی نے اپنے ملک میں یہ قانون بنا رکھا ہے کہ کوئی لیبیائی باشندہ کسی دوسرے لیبیائی کو ملازم نہیں رکھ سکتا۔‘‘
آپ کا ردعمل کیا ہے؟