تاریخ کے 7 بدنام زمانہ سیریل کلرز کی ہولناک داستان ، انجام کیا ہوا ؟
کہتے ہیں کہ صرف درندہ صفت انسان ہی کسی دوسرے شخص کو خوفناک اور سفاکانہ طریقے سے نقصان پہنچا سکتا ہے، ایسے لوگ بظاہر تو انسان نظر آتے ہیں لیکن ان میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیاوی تاریخ میں کچھ ایسے ہی خطرناک […]
کہتے ہیں کہ صرف درندہ صفت انسان ہی کسی دوسرے شخص کو خوفناک اور سفاکانہ طریقے سے نقصان پہنچا سکتا ہے، ایسے لوگ بظاہر تو انسان نظر آتے ہیں لیکن ان میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیاوی تاریخ میں کچھ ایسے ہی خطرناک قسم کے سیریل کلرز گزرے ہیں جنہوں نے ظلم اور بربریت کی ناقابل فراموش داستانیں رقم کیں۔
ویسے تو سیریل کلر کی تعریف وہ مجرم ہے جو مختلف وقتوں میں الگ الگ مواقع پر کم از کم دو افراد کو قتل کرے۔ اگرچہ "سیریل مرڈر” کو کسی قانونی ضابطے کے تحت باقاعدہ تسلیم نہیں کیا گیا لیکن سیریل کلرز کے جرائم اکثر میڈیا اور عوام کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔
خاص طور پر جب ان کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہو یا قتل انتہائی ہولناک اور سفاکانہ انداز میں کیے گئے ہوں۔
زیر نظر مضمون میں 7 ایسے ہی سیریل کلرز کا ذکر کیا گیا ہے جو دنیا میں خوف و دہشت کی علامت بنے اور جن کے بارے میں جان کر قارئین کے خوف کے باعث رونگھٹے کھڑے ہوجائیں گے۔
جیک دا ریپر
جیک دا ریپر نامی یہ قاتل 1888 میں لندن کے وائٹ چیپل علاقے میں نمودار ہوا اور پانچ خواتین جو کہ تمام پیشہ ورانہ طور پر جسم فروشی میں ملوث تھیں ان کو باری باری قتل کیا۔
اس قاتل نے ان خواتین کو بے دردی سے قتل کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو بری طرح مسخ کردیا تھا۔ پولیس کے مطابق یہ قاتل ایک سرجن، قصائی، یا کوئی ایسا شخص تھا جسے چاقو یا سرجیکل نائف کے استعمال میں بہت مہارت حاصل تھی۔
اس سفاک اور چالاک قاتل جیک دا ریپر نے پولیس کا مذاق اڑاتے ہوئے خطوط کے ذریعے اپنے جرائم کے بارے میں خود آگاہ کیا لیکن اس قاتل کی شناخت آج تک ممکن نہ ہو سکی۔
جیفری ڈاہمر
جیفری ڈاہمر نے قتل کی وارداتیں 1978 میں شروع کیں اس وقت اس کی عمر محض 18 سال تھی اور یہ قاتل 1991 میں اس وقت گرفتار ہوا جب اس کے ایک ممکنہ شکار نے اس کی قید سے فرار ہو کر پولیس کو اس کے گھر تک پہنچایا۔
پولیس کو اس کے گھر پر قتل کی وارداتوں کے ہولناک ثبوت ملے جن میں مسخ شدہ لاشوں کی تصاویر اور جسم کے مختلف اعضاء شامل تھے۔ وہ اپنے شکار کو ختم کرنے کے لیے تیزاب کا استعمال بھی کرتا تھا۔
مجموعی طور پر ڈاہمر نے 17 افراد کو قتل کیا، جن میں زیادہ تر نوجوان اور اقلیتی گروہوں کے افراد شامل تھے۔ وہ دو مرتبہ جیل بھی گیا، ایک بار بدفعلی کے الزام میں اور دوسری بار قتل کے جرم میں، بعد ازاں دوران قید 1994 میں ایک قیدی نے جیل میں ہی اسے قتل کردیا۔
ہیرالڈ شپ مین
ہیرالڈ شپ مین جسے "ڈاکٹر ڈیتھ” بھی کہا جاتا ہے، پولیس کو اس پر 250 افراد کو قتل کرنے کا شبہ تھا۔ یہ ڈاکٹر ڈیتھ مانچسٹر، انگلینڈ میں خدمات انجام دیتا رہا اور 1972 سے 1998 تک دو مختلف کلینکس میں کام کے دوران لوگوں کو قتل کرتا رہا۔
کئی وارداتوں کے بعد پولیس نے تحقیقات تو شروع کیں لیکن اس کیخلاف کوئی ٹھوس ثبوت حاصل نہ کرسکی پولیس کی ان ہی ناکامیوں کی وجہ سے شپ مین قتل کی مزید وارداتیں کرتا رہا۔
ہیرالڈ شپ مین کی گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب اس نے ایک دولت مند شخص کی جعلی وصیت بنانے کی کوشش کی، جس میں اس نے خود کو اس کا وارث قرار دیا۔ سال 2000 میں اسے قید کی سزا سنائی گئی اور 2004 میں اس نے جیل میں ہی خودکشی کرلی۔
جان وین گیسی
جان وین گیسی نامی سیریل کلر جو اپنے محلے میں ایک تعمیراتی ورکر اور سیاست میں سرگرم شخص کے طور پر جانا جاتا تھا، خفیہ طور پر ایک خطرناک قاتل تھا۔ اس کے گھر کے نیچے موجود تہہ خانے سے 30 لاشیں برآمد ہوئیں۔
سال 1978میں ایک 15 سالہ لڑکے کے غائب ہونے کے بعد پولیس نے جان وین گیسی پر شک کی بنیاد پر تحقیقات کیں تو انکشاف ہوا کہ وہ 33 افراد کے قتل میں بھی ملوث تھا۔
اس کے جرائم کی فہرست میں مقتولین پر جنسی تشدد اور انتہائی اذیت سے مارنا شامل تھے۔ اسے 1994 میں زہر کے انجکشن کے ذریعے موت کی سزا دی گئی۔
ایچ ایچ ہومز
شکاگو میں 1893 کے ورلڈ فیئر کے دوران ایچ ایچ ہومز نامی قاتل نے اپنے ہوٹل کو اذیت خانے میں بدل دیا تھا، اس کے ہوٹل میں خفیہ راستے، بند گلیاں اور تشدد کے آلات موجود تھے۔وہ ہوٹل میں آنے والے گاہکوں کو پہلے زہر دے کر بے ہوش کرتا اور پھر ان کے ساتھ بدترین سلوک کرتا تھا۔
ان کی لاشیں جلانے کے بعد وہ ایک میڈیکل اسکول کو انسانی ڈھانچے فروخت کرتا تھا اور ساتھ ہی انشورنس کے نام پر دھوکہ بازی بھی کرتا تھا۔ 1896 میں 30 سے زائد قتل کا اعتراف کرنے کے بعد اسے پھانسی کی سزا دی گئی۔
پیڈرو لوپیز
پیڈرو لوپیز دنیا کے سب سے بدنام اور خطرناک قاتلوں میں سے ایک ہے جو شاید ابھی تک زندہ ہو۔ وہ کولمبیا، ایکواڈور اور پیرو میں 300 سے زائد قتل کی وارداتوں میں ملوث تھا۔ ان میں سے کئی مقتولین ایک مخصوص قبیلے کی لڑکیاں تھیں۔
سال1980میں گرفتاری کے بعد پولیس نے اس کی نشاندہی پر 50 سے زائد مقتولین کی قبریں دریافت کیں، اسے صرف 20 سال کی سزا دی گئی اور 1998 میں اچھے برتاؤ کی بنا پر اسے رہا کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے وہ کہاں چلا گیا اس کا کسی کو کوئی علم نہیں۔
ٹیڈ بنڈی
ٹیڈ بنڈی ایک ایسا قاتل تھا جسے اپنے قتل کی وارداتوں کی خبروں کے باعث توجہ کا مرکز بننا پسند تھا۔ اس نے مغربی امریکہ میں متعدد کالجز کی طالبات کو قتل کیا۔
ایک بار کولوراڈو میں گرفتاری کے بعد جیل سے فرار ہو کر وہ فلوریڈا پہنچا اور مزید لوگوں کو قتل کیا۔ ٹیڈ بنڈی کے آخری ٹرائل کو میڈیا نے خصوصی کوریج دی تھی، جہاں اس نے اپنا وکیل خود بننے کی کوشش کی اور خود کو ہیرو بنانے کیلیے لوگوں کو اپنی باتوں سے متاثر کرنے کی کوشش کی۔ 1989 میں اسے الیکٹرک چیئر پر بٹھا کر سزائے موت دے دی گئی۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟