باسو چٹرجی:‌ وہ فلم ساز جس نے زندگی کو بڑے پردے پر پیش کیا!

بڑے پردے پر حقیقی زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے باسو دا کو یہ خوف محسوس نہیں‌ ہوا کہ اگر ان کی فلم ناکام ہوگئی تو کیا ہوگا۔ ہندی سنیما کے لیے موضوعات کبھی اساطیر سے لیے گئے، کسی نے جنگ و جدل کو موضوع بنایا، کسی نے ناول کو پردے کے مطابق ڈھالا اور کسی […]

 0  3
باسو چٹرجی:‌ وہ فلم ساز جس نے زندگی کو بڑے پردے پر پیش کیا!

بڑے پردے پر حقیقی زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے باسو دا کو یہ خوف محسوس نہیں‌ ہوا کہ اگر ان کی فلم ناکام ہوگئی تو کیا ہوگا۔

ہندی سنیما کے لیے موضوعات کبھی اساطیر سے لیے گئے، کسی نے جنگ و جدل کو موضوع بنایا، کسی نے ناول کو پردے کے مطابق ڈھالا اور کسی فلم ساز نے سیاسی یا سماجی تحریک کے زیرِ اثر فلمیں اس امید پر بنائیں کہ شائقین کی جانب سے زبردست پذیرائی ملے گی، لیکن بھاری سرمائے یا کم بجٹ کی فلمیں ہوں، بہ طور ہدایت کار باسو چٹر جی ان کی ناکامی سے خوف زدہ نہیں ہوئے اور حقیقی زندگی کی عکاسی کرتے رہے اور ان کی فلمیں شاہکار ثابت ہوئیں۔

پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ناقدین کے مطابق ہندوستانی سنیما کو جتنے بڑے فن کار اور آرٹسٹ ملے، اتنی ہی زور دار فلمیں بھی سامنے آئیں۔ یہ بہترین فلمیں، ان کے یادگار نغمات اور لازوال موسیقی آج بھی اُس دور کے ایسے فلم سازوں اور ہدایت کاروں کی یاد تازہ کر دیتی ہیں، جن کے تخلیقی وفور اور صلاحیتوں نے شاہ کار فلمیں بنائیں۔ ہدایت کار اور اسکرین پلے رائٹر باسو چٹر جی انہی میں سے ایک تھے۔ اُن کے کام کی بات کی جائے تو سارا آکاش، رجنی گندھا، چھوٹی سی بات، اس پار، کھٹا میٹھا، باتوں باتوں میں، ایک رکا ہوا فیصلہ اور چنبیلی کی شادی جیسی فلمیں ان کا تعارف اور مضبوط حوالہ بنیں۔

رجنی گندھا (1974) اور چھوٹی سی بات (1975) کی وہ فلمیں تھیں جن کی بدولت ان کا نام ایک فلم ساز اور اسکرین پلے رائٹر کے طور پر مشہور ہوا۔ باسو چٹر جی 93 سال کی عمر میں 4 جون 2020ء کو ممبئی میں چل بسے تھے۔ ان کی اکثر فلمیں متوسط طبقے کے گھرانوں کی عکاس ہیں اور ان فلموں میں شادی شدہ جوڑوں کی زندگی، اتار چڑھاؤ اور پیار محبت دیکھا جاسکتا ہے۔

بہ طور ہدایت کار باسو چٹر جی کی پہلی فلم 1969 میں ریلیز ہوئی تھی جس کا نام سارا آکاش تھا۔ اس فلم کو بعد میں بہترین اسکرین پلے کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا تھا۔ شائقین نے بھی اس فلم کو بہت پسند کیا تھا۔ باسو چٹرجی وہ فلم ساز تھے جنھوں نے اس دور کے کئی آرٹسٹوں کو ایسے رول دیے، جن سے انھیں شہرت ملی اور ان کے فنی سفر میں وہ کردار ایک اچھا اضافہ تھے۔ انھوں نے متھن چکرورتی کے ساتھ فلم بنام شوقین بنائی۔ ونود مہرا کے ساتھ اُس پار، جیتندر اور نیتو سنگھ کے ساتھ پریتما، دیو آنند کے ساتھ من پسند، دھرمیندر اور ہیما مالنی کو دل لگی میں کردار دیا اور امیتابھ بچن کے ساتھ فلم منزل بنائی تھی۔ باسو چٹر جی کی فلموں نے سماجی موضوعات پر بہترین فلموں کے متعدد ایوارڈز اپنے نام کیے۔

وہ ہندی فلموں کے ایک بنگالی نژاد ہدایت کار تھے جنھوں نے ہلکے پھلکے اور عام فہم انداز میں اہم موضوعات پر فلمیں بنا کر شہرت حاصل کی۔ باسو چٹر جی 1930ء میں اجمیر (راجستھان) میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 50ء کی دہائی میں قسمت آزمانے بمبئی منتقل ہوگئے۔ ان کا ایک حوالہ وہ کارٹون بھی ہیں، جو انھوں نے نوجوانی میں بنانا شروع کیے تھے اور ان کی اشاعت ہفت روزہ "بلٹز” میں باقاعدگی سے ہوتی تھی۔ انھوں نے دس بارہ سال تک کارٹونسٹ کے طور پر بھی کام کیا۔

بمبئی آنے کے بعد باسو چٹرجی کو جلد ہی بہ طور ہدایت کار فلم مل گئی۔ 1969ء میں ان کی فیچر فلم "سارا آکاش” ریلیز ہوئی جو نہ صرف کام یاب ہوئی بلکہ اسے لاجواب فوٹوگرافی کا ایوارڈ بھی ملا۔ اس کے بعد ان کی دو جذباتی اور حساس موضوعات پر فلمیں سامنے آئیں اور پھر وہ دل چسپ اور مزاحیہ انداز میں "رجنی گندھا” اور "چھوٹی سی بات” جیسی عام لوگوں کے مسائل پر فلمیں تخلیق کرنے لگے اور کام یاب رہے۔

چٹرجی ایک باکمال کے ہدایت کار تھے جنھوں نے فارمولہ فلموں میں بھی جذبات و احساسات کی نمائش بہت سلیقے سے کی۔ وہ ایک منجھے ہوئے ہدایت کار اور تجربہ کار فلم ساز تھے جس نے 1993ء تک جتنی بھی فلمیں اور ٹی وی سیریل بنائے، وہ کام یاب اور بے حد مقبول بھی رہے۔ ان کے کام نے نہ صرف عام آدمی کو متاثر کیا بلکہ اعلیٰ طبقے میں بھی ان کی فلمیں بہت پسند کی گئیں۔ باسو چٹر جی نے کُل 42 فلمیں بنائیں اور یہ سب کسی نہ کسی حوالے سے یادگار ثابت ہوئیں۔

باسو کے والد اُتر پردیش کے شہر متھرا میں بسلسلہ ملازمت اقامت پذیر تھے۔ باسو نے وہیں اپنی زندگی کو محسوس کیا اور نوجوانی میں فلمیں دیکھتے ہوئے وقت گزارا۔ اسی فلم بینی نے ان کے اندر چھپے فن کار اور باصلاحیت نوجوان کو بمبئی جانے پر اکسایا اور وہ بیس اکیس برس کے تھے جب بمبئی میں ایک ملٹری اسکول میں لائبریرین مقرر ہوگئے۔ اسی دور میں کارٹونسٹ ہوئے اور وہ وقت بھی آیا جب باسو چٹر جی نے اطالوی، فرانسیسی اور دوسرے ممالک کی فلمیں دیکھ کر یہ جانا کہ اس میڈیم کا دائرہ بہت وسیع ہے اور تفریح تفریح میں فلم کی طاقت سے کوئی کام لیا جاسکتا ہے۔

باسو چٹر جی خود کو ایک عام آدمی کہتے تھے اور ان کے مطابق وہ عام لوگوں میں رہتے تھے، بس میں سفر کیا کرتے تھے۔ اس دوران وہ اپنے ارد گر لوگوں کی خوشیوں کو دیکھتے، اور ان کا دکھ درد اور غم بھی سنتے رہے۔ یہی ان کے نزدیک زندگی تھی اور پھر وہ اس سے باہر نہیں نکل سکے۔ ان سے وہ فلمیں نہیں بنیں جن میں ایک آدمی جسے فلم میں ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اپنے سے بھاری بھرکم اور طاقت ور دکھائی دینے والے دس، پندرہ لوگوں سے بھڑ جاتا ہے، اور جیت اُسی کی ہوتی ہے۔ انھوں نے زندگی کو جیسا دیکھا، کوشش کی کہ اُسی طرح فلم کے پردے پر بھی پیش کردیں۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow