بادشاہ اکبر اور حجام
ہندوستان کے بادشاہ اکبر اور اس کے نو رتن میں بیربل کو کون نہیں جانتا۔ بادشاہ اور بیربل کے کئی قصّے آپ نے پڑھ رکھے ہوں گے۔ یہ قصّے اور مشہور واقعات سبق آموز بھی ہیں، انوکھے، حیران کن، ناقابلِ یقین اور اکثر دل چسپ بھی ہیں۔ بیربل اپنی ذہانت اور حاضر جوابی کی وجہ […]
ہندوستان کے بادشاہ اکبر اور اس کے نو رتن میں بیربل کو کون نہیں جانتا۔ بادشاہ اور بیربل کے کئی قصّے آپ نے پڑھ رکھے ہوں گے۔ یہ قصّے اور مشہور واقعات سبق آموز بھی ہیں، انوکھے، حیران کن، ناقابلِ یقین اور اکثر دل چسپ بھی ہیں۔ بیربل اپنی ذہانت اور حاضر جوابی کی وجہ سے بادشاہ کا منظورِ نظر تھا جسے ہماری ثقافت میں ایک دانا اور عقل مند انسان کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ بیربل کا کردار افسانوی شہرت کا حامل ہے اور ان نو رتنوں سے منسوب واقعات کو بطور حکایت پیش کیا جاتا ہے۔
اکبر اور بیربل سے متعلق ایک قصّہ بہت مشہور ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
کہتے ہیں کہ ایک رات کو بادشاہ اور بیربل بھیس بدل کر شہر کا گشت کر رہے تھے۔ دونوں کا گزر ایک حجام کی جھونپڑی کے پاس سے ہوا۔ حجام جھونپڑی کے باہر چارپائی پر بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ اکبر نے اس سے پوچھا۔ بھائی یہ بتاؤ کہ آج کل اکبر بادشاہ کے راج میں لوگوں کی گزر بسر کیسے ہورہی ہے، ان کا کیا حال ہے۔ حجام فوراً بولا۔ اجی کیا بات ہے۔ ہمارے اکبر بادشاہ کی۔ اس کے راج میں ہر طرف امن اور خوش حالی ہے۔ لوگ عیش کر رہے ہیں۔ ہر دن عید ہے ہر رات دیوالی ہے۔
اکبر اور بیربل حجام کی باتیں سن کر آگے بڑھ گئے۔ اکبر نے بیربل سے فخریہ لہجے میں کہا۔ بیربل دیکھا تم نے ہماری سلطنت میں رعایا کتنی خوش ہے؟ بیربل نے عرض کیا بیشک جہاں پناہ آپ کا اقبال بلند ہے۔
چند روز بعد پھر ایک رات دونوں کا گزر اسی مقام سے ہوا۔ اکبر نے حجام سے پوچھ لیا۔ کیسے ہو بھائی؟ حجام نے چھوٹتے ہی کہا۔ اجی حال کیا پوچھتے ہو، ہر طرف تباہی بربادی ہے۔ اس اکبر بادشاہ کا ستیا ناس جائے، منحوس بادشاہ ہے۔ اکبر یہ سن کر حیران رہ گیا۔ یہی آدمی تو تھا جو کچھ دن پہلے بادشاہ کی اتنی تعریف کر رہا تھا۔ اور اب ایسا کیا ہو گیا؟
دراصل بادشاہ کو عوام کی بدحالی اور تکالیف کا کوئی حقیقی معنوں میں علم نہیں تھا۔ اسے تو سب اچھا ہے بتایا جاتا تھا۔ اکبر نے حجام سے پوچھنا چاہا۔ لوگوں کی تباہی اور بربادی کی وجہ کیا ہوئی۔ مگر حجام اس وقت آپے سے باہر ہوا جارہا تھا۔ وہ کوئی وجہ بتائے بغیر حکومت کو برا بھلا کہتا رہا۔ اکبر اس کی بات سے پریشان ہو گیا۔ بادشاہ نے وہاں سے کچھ دور جاکر بیربل سے پوچھا “آخر اس شخص کو کیا ہوگیا ہے، یہ سب کیوں کہہ رہا ہے”۔
بیربل نے جیب سے ایک تھیلی نکالی اور بادشاہ سے کہا۔ اس میں دس اشرفیاں ہیں جو میں نے دو روز پہلے اس کی جھونپڑی سے چوری کروائی تھیں۔ حضور، جب تک اس کی جھونپڑی میں مال تھا۔ اسے بادشاہ، اس کی حکومت سب کچھ اچھا لگ رہا تھا۔ اور اپنی طرح وہ سب کو خوش حال اور سکھی سمجھ رہا تھا۔ لیکن جب اس کی دولت لٹ گئی تو اسے ساری دنیا میں تباہی اور بربادی اور سب لوگ مصیبت میں مبتلا نظر آتے ہیں۔
جہاں پناہ! میں نے یہ حرکت کیوں کی؟ اس لیے کہ میں آپ کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ ایک فرد اپنی خوش حالی کے تناظر میں ہی دوسروں کو بھی خوش و خرّم دیکھتا ہے۔ بادشاہوں اور حکم رانوں کو رعایا کا دکھ درد سمجھنے کے لیے اپنی ذات سے باہر نکلنا چاہیے اور ان کی عینک سے معاملات کو دیکھنا اور سمجھنا چاہیے۔ تبھی وہ اپنی رعایا کو سکھی اور شاد باد رکھ سکتے ہیں۔
(ہندوستانی قصے اور حکایات)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟