اہرام مصر کیلئے بھاری پتھر کیسے لائے گئے ؟ ہوشربا انکشاف

اہرام مصر دنیا بھر کے بڑ ے عجائبات میں سب سے بڑا عجوبہ ہے، اس کی تعمیر ہو یا تاریخ اس لحاظ سے بے شمار راز ایسے ہیں جو اب تک محققین سے پوشیدہ تھے لیکن وقت کے ساتھ ان رازوں سے پردہ اٹھتا جارہا ہے۔ ویسے تو محققین صدیوں سے یہ راز جاننے کے […]

 0  3
اہرام مصر کیلئے بھاری پتھر کیسے لائے گئے ؟ ہوشربا انکشاف

اہرام مصر دنیا بھر کے بڑ ے عجائبات میں سب سے بڑا عجوبہ ہے، اس کی تعمیر ہو یا تاریخ اس لحاظ سے بے شمار راز ایسے ہیں جو اب تک محققین سے پوشیدہ تھے لیکن وقت کے ساتھ ان رازوں سے پردہ اٹھتا جارہا ہے۔

ویسے تو محققین صدیوں سے یہ راز جاننے کے لیے کوشاں رہے ہیں کہ اہرام مصر کی تعمیر کیلئے استعمال ہونے والے انتہائی بھاری اور دیوہیکل پتھر صحرا تک کیسے پہنچائے گئے؟

یہ وہ سوال ہے جو زمانہ قدیم سے سائنسدانوں کے لیے معمہ بنا ہوا ہے اور یہ کہ ہزاروں سال قبل کس طرح قدیم مصر میں اتنے بڑے اہرام تعمیر کیے گئے مگر اب اس کا ممکنہ جواب سامنے آگیا ہے۔

egypt

غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماہرین آثار قدیمہ نے صحرا کے نیچے دبی دریائے نیل کی ایسی شاخ دریافت کی ہے جو ہزاروں سال قبل 30 سے زائد اہرام کے اطراف بہتی تھی۔

ماہرین اس دریافت سے یہ معمہ حل ہوتا ہے کہ کس طرح قدیم مصریوں نے اہرام تعمیر کرنے کے لیے بہت وزنی پتھر وہاں تک پہنچائے۔

A map of the water course of the ancient Ahramat Branch.

40میل لمبی دریا کی یہ شاخ نامعلوم عرصے قبل گیزہ کے عظیم ہرم اور دیگر اہرام کے گرد بہتی تھی اور ہزاروں سال قبل صحرا اور زرعی زمین کے نیچے چھپ گئی۔

ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ دریا کی موجودگی سے وضاحت ہوتی ہے کہ کیسے 4700 سے 3700برسوں قبل 31 اہرام اس وادی میں تعمیر ہوئے جو اب ویران صحرائی پٹی میں بدل چکی ہے۔

Pyramid

یہ وادی مصر کے قدیم دارالحکومت ممفس کے قریب موجود ہے اور یہاں گیزہ کا عظیم ہرم بھی موجود ہے جو دنیا کے قدیم 7 عجائب میں شامل واحد ایسا عجوبہ ہے جو اب بھی موجود ہے۔

جرنل نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ایک تحقیق میں دریا کی اس شاخ کو دریافت کیا گیا ہے، سائنس دانوں نے ابو الہول کے مجسمے کا صدیوں پرانا راز جان لیا۔

History

خیال رہے کہ ماہرین آثار قدیمہ کافی عرصے سے یہ خیال ظاہر کر رہے تھے کہ قدیم مصر میں دریا کو ہی اہرام کی تعمیر کے لیے استعمال کیا گیا تھا مگر اب تک کسی کو قدیم زمانے میں بہنے والے دریا کے مقام، ساخت یا حجم کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔

تحقیقی ٹیم نے ریڈار سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے دریا کی اس خفیہ شاخ کو دریافت کیا۔اس مقام کے سرویز اور نمونوں کی جانچ پڑتال سے دریا کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی۔

محققین کے مطابق کسی زمانے میں یہ دریا بہت طاقتور ہوگا مگر ممکنہ طور پر 4200 سال قبل قحط سالی کے باعث وہ ریت میں چھپنا شروع ہوگیا، گیزہ کا عظیم ہرم اس چھپے ہوئے دریا کے کنارے سے محض ایک کلومیٹر کی دوری پر موجود ہے۔

Nile river

اس ہرم کی تعمیر کے لیے 23 لاکھ بلاکس استعمال ہوئے تھے اور ہر بلاک کا وزن ڈھائی سے 15 ٹن کے درمیان تھا۔ محققین کے مطابق بیشتر اہرام بھی دریا کے اردگرد ہی واقع محسوس ہوتے ہیں اور یہ عندیہ ملتا ہے کہ اس دریا کو تعمیراتی سامان پہنچانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ دریا سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ اہرام مختلف مقامات پر کیوں تعمیر کیے گئے۔انہوں نے بتایا کہ دریا کا راستہ اور بہاؤ وقت کے ساتھ بدلتا رہا اور اسی وجہ سے مصری شہنشاؤں نے مختلف مقامات پر اہرام تعمیر کیے۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow