اسکالی گر: ایک مفکر اور فلسفی
اسکالی گر (۱۴۸۴- ۱۵۵۸) ارسطو کی طرح ایک مفکر تھا اور اس سے کافی متاثر۔ وہ اپنی مشہور کتاب ’فنِ شاعری‘ میں زبان کی ابتدا، اس کے ماخذ، مقاصد، فوائد اور اصولِ ترقی پر بحث کرتا ہے اور اس کے بعد مفصل طور پر شاعری کی مختلف اصناف کو زیر بحث لاتا ہے۔ شاعری کے […]
اسکالی گر (۱۴۸۴- ۱۵۵۸) ارسطو کی طرح ایک مفکر تھا اور اس سے کافی متاثر۔
وہ اپنی مشہور کتاب ’فنِ شاعری‘ میں زبان کی ابتدا، اس کے ماخذ، مقاصد، فوائد اور اصولِ ترقی پر بحث کرتا ہے اور اس کے بعد مفصل طور پر شاعری کی مختلف اصناف کو زیر بحث لاتا ہے۔ شاعری کے مقاصد بیان کرتے ہوئے وہ ہوریسؔ کے اس خیال کی تائید کرتا ہے کہ شاعری کا مقصد ’’سکھانا اور خوش کرنا‘‘ ہے۔ اس زمانے میں مندرجہ بالا دو مقاصد عام طور پر مقبول تھے۔ مترنوؔ اپنی کتاب ’’شاعر‘‘ میں شاعری کا مقصد ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ ’’اشعارمیں وہ چیزیں پیش کرنا جس کے ذریعے شاعر کچھ سکھا سکے۔ خوش کرسکے اور جذبات کو بیدار کرسکے۔‘‘ کاسٹل دیؔ ترو بھی اس خیال سے متفق ہے۔
اسکالی گر اس کے متعلق رقم طراز ہے۔ ’’پہلے زمانے کے خطیبوں کا مقصد کسی بات کو صرف ذہن نشین کرانا اور سامعین کو متاثر کرنا تھا۔ اور اس بنا پر ان کی زبان سخت اور انداز پُر زور ہوتا تھا۔ شعراء کا مقصد صرف خوش کرنا تھا اور اس لیے وہ صرف دل موہ لینے والے اشعار پیش کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ خطیب اور شاعر نے ایک دوسرے سے وہ چیز حاصل کرلی جس کی ان میں بالترتیب کمی تھی۔‘‘ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے شاعر کی تخلیقات میں چند صفات کی موجودگی ضروری ہے۔ جن کے بغیر ان مقاصد کاحصول ممکن نہیں۔ ’’شاعر کے لیے سب سے ضروری چیز اپنی تخلیق پر پوری طرح غور و خوض کرنا ہے۔ تاکہ وہ تمام ایک سانچہ میں ڈھلی ہوئی معلوم ہو اور اس میں کسی قسم کا تضاد نہ محسوس ہو۔ علاوہ ازیں شاعر کو گوناگوں واقعات اور احساسات میں توازن رکھنا چاہیے اور جب تک کہ شاعر اپنی تخلیق سے خود مطمئن نہ ہوجائے اسے دوسروں کے سامنے ہرگز پیش نہ کرنا چاہیے۔ ورنہ قاری اور سامع اس سے حظ حاصل کرنے کے بجائے متنفر ہوجائیں گے۔
شاعری کی تیسری خصوصیت کو جو بہت ہی کم شعراء میں پائی جاتی ہے۔ میں شوخی اور گہرائی کہہ سکتا ہوں۔ اس سے میری مراد خیال اور اظہار میں ایک خاص قسم کی قوت اور زور ہے جو سامع کو اپنی توجہ اس طرف مبذول کرنے پر مجبور کر دے۔ چوتھی خصوصیت دلکشی اور دل فریبی ہے۔ جو شوخی کو اعتدال پر لاتی ہے۔ غرض شاعری کی خصوصیت گہری نظر۔ دور بینی۔ تنوع۔ شوخی اور دلکشی ہیں۔‘‘
اسکالیؔ گر، ارسطوؔ کے ’نظریۂ نقل‘ کو صحیح مانتا ہے۔ لیکن وہ اس لفظ کو وسیع تر معنوں میں استعمال کرتا ہے۔ اسینگرنؔ کے خیال میں اس زمانے میں نظریۂ نقل نے ارتقاء کی تین منازل طے کی ہیں اور یہ تینوں منازل وڈاؔ۔ اسکالیؔ گر اور بوآلو کے یہاں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ وڈاؔ کے خیال میں ادب کی سب سے بڑی خوبی متقدمین کی نقل میں پوشیدہ ہے۔ اسکالی گر اس نظریہ کو اور آگے بڑھاتا ہے۔ اس کے لحاظ سے شاعر ایک خالق ہوتا ہے جو ایک دوسری دنیا اور ایک نیا ماحول تخلیق کرتا ہے۔ بوآلو فطرت اور فن کے نوکلاسیکی نظریہ کو اس کی منطقی تکمیل تک پہنچا دیتا ہے۔ اس کے یہاں کوئی تخلیق اس وقت تک حسین نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ صداقت پر مبنی نہ ہو۔ اور کوئی تخلیق اس وقت تک صداقت پر مبنی نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ فطرت میں موجود نہ ہو۔ غرض ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ اسکالی گر نظریۂ نقل کو مانتا ہے لیکن اس نے اس لفظ میں اس قدر وسعت پیدا کردی ہے کہ اس نے اپنے دامن میں تخلیق کو بھی سمیٹ لیا ہے اور اس تخلیق ہی کو وہ نقل کہتا ہے۔
(سعید احمد رفیق کے مضمون ‘نشاۃ الثانیہ میں جمالیاتی افکار’ سے انتخاب)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟