’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں!‘‘
ادھر کئی مہینوں سے مکان کی تلاش میں شہر کے بہت سے حصوں اور گوشوں کی خاک چھاننے اور کئی محلّوں کی آب و ہوا کو نمونے کے طور پر چکھنے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ جس طرح ہر گلی کے لیے کم سےکم ایک کم تول پنساری، ایک گھر کا شیر کتا، […]
ادھر کئی مہینوں سے مکان کی تلاش میں شہر کے بہت سے حصوں اور گوشوں کی خاک چھاننے اور کئی محلّوں کی آب و ہوا کو نمونے کے طور پر چکھنے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ جس طرح ہر گلی کے لیے کم سےکم ایک کم تول پنساری، ایک گھر کا شیر کتا، ایک لڑا کا ساس، ایک بد زبان بہو، ایک نصیحت کرنے والے بزرگ، ایک فضیحت پی جانے والا رند، اور حوائجِ ضروری سے فارغ ہوتے ہوئے بہت سے بچوں کا ہونا لازمی ہوتا ہے، اسی طرح کسی نہ کسی بھیس میں ایک ماہرِ غالبیات کا ہونا بھی لازمی ہوتا ہے اور بغیر اس کے گرد و پیش کا جغرافیہ کچھ ادھورا رہ جاتا ہے۔
اچھا بھلا ایک مکان مل گیا تھا لیکن ابھی اس میں منجملہ اسبابِ ویرانی میرا لپٹا ہوا بستر بھی ٹھیک سے کھل نہیں پایا تھا کہ محلّے کے ماہرِ غالبیات نے نہیں معلوم کیسے سونگھ لیا کہ میں سخن فہم نہ سہی غالب کا طرف دار ضرور ہوں اور مجھے اپنی غالبانہ گرفت میں ایک صید زبوں کی طرح جکڑ لیا۔ آتے ہی آتے انہوں نےغالب کے متعلق دوچار حیرت انگیز انکشافات کے بعد مجھے پھانسنے کے لیے ایک آدھ ہلکے پھلکے سوالات کر دیے۔ اب میری حماقت ملاحظہ ہو۔۔۔ کہ دل ہی دل میں اپنے آپ کو بہت بڑاغالب فہم سمجھتا۔ میں نے ان کو نرم چارہ سمجھ کر ان پر دوچار منھ ماردیے یا یوں سمجھ لیجیے ان کی دُم پر پیر رکھ دیا یعنی ان کے سامنے غالب کو اپنے مخصوص زاویہ نگاہ سے پیش کرنے کی ’’سعی لا حاصل‘‘ کر بیٹھا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ میں کسی بارود کے خزانے کے قریب دیا سلائی جلانے کی کوشش کر رہا ہوں؟
پھر کیا تھا، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں‘‘ چیخ کر ماہرِ غالبیات پھٹ تو پڑے مجھ پر! اور میری معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے فنِ غالبیات کی ایسی ایسی توپوں اور آتش فشانوں کے دہانے کھول دیے کہ میں سراسیمہ، مبہوت اور ششدر ہو کر ہمیشہ کے لیے عہد کر بیٹھا کہ اب آئندہ کسی اجنبی بزرگ کے سامنے حضرت غالب کا نام اپنی زبان بے لگام سے ہرگز ہرگز نکلنے نہ دوں گا۔ دوسرے ہی دن سے ماہر غالبیات نے، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ کے عنوان سے میری باقاعدہ تعلیم شروع کر دی۔ سویرے میں بستر ہی پر ہوتا کہ وہ ’’لذت خواب سحر‘‘ پر دھاوا بولتے آپہنچتے اور پہلے غالب کے کچھ انتہائی سنگلاخ اشعار پڑھ کر ان کے معنی مجھ سے پوچھتے، گویا میرا آموختہ سنتے اور پھر قبل اس کے کہ میں ایک لفظ بھی اپنی زبان سے نکال پاؤں، وہ ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ فرما کر ان کے معنی اور مطالب خود بیان کرنا شروع کر دیتے۔
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
اور پھر نوبت یہاں تک پہنچتی کہ میں داڑھی بنارہا ہوں اور وہ غالب کا فلسفۂ حسن سمجھا رہے ہیں۔ میں کنگھا کر رہا ہوں اور وہ آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز، میں مسئلہ ارتقا کو پروان چڑھتے دیکھ رہے ہیں۔ میں کپڑے بدل رہا ہوں اور وہ ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا، پڑھ پڑھ کر اور گاہے گاہے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگا لگا کر غالب کو ہندوستان کا سب سے پہلا انقلابی ثابت کر رہے ہیں۔ میں جوتے کی ڈوریاں باندھ رہا ہوں اور وہ ’بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے‘ والے مصرع سے فضائے آسمانی پر اسپٹنگ چھوڑ رہے ہیں۔ میں ناشتہ کر رہا ہوں اور وہ ’’مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے‘‘ دہرا دہرا کر غالب کے علم الغذا پر کچھ اس انداز سے روشنی ڈال رہے ہیں کہ میرے منہ کا نوالہ حلق میں جانے سے انکار کر بیٹھتا ہے۔ میں دفتر جانے کے لیے سائیکل نکال رہا ہوں اور وہ غالب کا فلسفۂ عمرانیات بیان کر رہے ہیں۔ میں سائیکل پر بیٹھ چکا ہوں اور وہ شام کو دفتر سے میری واپسی پر غالب اور ضبطِ تولید کے موضوع پر اپنے تازہ ترین الہامات کو مجھ پر نازل کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
شام کو ظہور پذیر ہوتے تو غالب اور دوسرے شعرا کا موازنہ شروع فرما دیتے اور غالب کے منہ لگنے والے دیگر تمام شعرا کو قابل گردن زدنی قرار دے کر بھی جب تسلی نہ ہوتی تو غالب کے مختلف شارحین کا پہلے سرکس پھر کشتی شروع کرا دیتے اور کافی دھر پٹخ کے بعد جب ہر شارح کافی پست ہو چکتا تو خود بھی اکھاڑے میں کود پڑتے اور فرداً فرداً ہر شارح کو پچھاڑتے اور پھر ہر شعر کے متعلق اپنی ایک انوکھی، اچھوتی اور عجوبۂ روزگار شرح کا آغاز کر دیتے جس کا انجام غالباً اس وقت تک نہ ہوتا جب تک میں اپنے ہوش و حواس کی قید و بند سے نجات پاکر وہاں نہ پہنچ جاتا جہاں سے خود مجھ کو میری خبر نہ آتی، یعنی بالکل ہی بے سدھ ہو کر اپنے بستر پر گر نہ جاتا۔
کئی مرتبہ تکلف برطرف کرکے منت سماجت کی، ہاتھ جوڑے، داڑھی میں ہاتھ دیا، کان پکڑ کر اٹھا بیٹھا اور حرف مطلب یوں زبان پر لایا کہ اے ماہرِ غالبیات آپ کو آپ کے حضرت غالب مبارک! مجھ مغلوب کو میرے ہی حال پر چھوڑ دیجیے تو آپ کی غالبیت میں کون سا بٹا لگ جائے گا؟ میں ایک گدائے بے نوا ہوں، احمق، جاہل اور ہیچمداں ہوں۔ میرے ایسے ذرۂ ناچیز کو غالب ایسے آفتاب عالم تاب سے کیا نسبت؟ میں حضرت غالب کا صرف اس قدر گنہگار ہوں کہ عالمِ طفولیت میں ایک مولوی صاحب نے اسکول میں کورس کی کتاب سے ان کی چند غزلیں زبردستی پڑھا دی تھیں۔ اس کے علاوہ مجھ سے قسم لے لیجیے جو میں نے کبھی انہیں ہاتھ بھی لگایا ہو اور ہاتھ لگاتا بھی خاک…. ہاتھ آئیں تو لگائے نہ بنے! غالب کو میں کیا میری سات پشتیں بھی نہیں سمجھ سکتیں۔
لیکن ماہرِ غالبیات بھلا کب ماننے والے تھے؟ میرے اظہارِ بیچارگی سے ان کی ہمہ دانی میں اور بھی چار چاند لگ جاتے اور فخر و تمکنت سے ان کے گلے کی رگیں پہلے سے بھی زیادہ پھولنے لگتیں،
’’ہو گا کوئی ایسا بھی جو غالب کو نہ جانے؟
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زبان اور!
آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں!
اے دریغاوہ رند شاہد باز!‘‘
اور یہ فرمانے کے بعد وہ غالب کے متعلق اپنی تحقیق اور دریافت کی گولہ باری مجھ پر کچھ اور تیز کر دیتے۔
بس کیا عرض کیا جائے کہ کس طرح عاجز اور پریشان کر رکھا تھا ان ماہرِ غالبیات نے۔ ان سے جان چھڑانے کے لیے بیسیوں ترکیبیں کیں۔ محلّے کے با اثر لوگوں کا دباؤ ڈالوایا۔ گمنام خطوط لکھے۔ ایک انسپکٹر پولیس سے ان کے خلاف کوئی فرضی مقدمہ چلانے کی فرمائش کی، بیماری کا ڈھونگ بنایا۔ بہرے بنے (تو التفات دونا ہوگیا۔) دوستوں کے گھر جا کر پناہ لی، گھر کے دروازے بند کرائے۔ نوکر کو ہدایت کی کہ ’’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے!‘‘ لیکن اجی توبہ کیجیے۔…. اہل تدبیر کی وا ماندگیاں!
ان حالات میں اسے چاہے میری بد ذاتی کہیے، چاہے اقدامِ قتل سے گریز کہ جیسے ہی مجھے ایک دوسرا مکان ملا جو اگرچہ میرے پہلے مکان کا صرف نصف بہتر معلوم ہوتا، میں رسیاں تڑا کر بھاگا۔ ماہر غالبیات سے میں نے کہہ دیا کہ میں شہر کیا صوبہ چھوڑ رہا ہوں اور وہ مجھے آبدیدہ ہوکر رخصت کرنے آئے تو بڑے رقت انگیز لہجے میں فرمایا، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ اور اگر میں ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی۔‘‘ نہ چیختا اور غلطی سے تانگے والا اس اس کا مخاطب اپنے آپ کو سمجھ کر فوراً تانگہ ہانک نہ دیتا تو یقیناً ماہرِ غالبیات مجھے ایک فی البدیہ الوداعی جلاب دیے بغیر ہرگز نہ مانتے۔ اپنے ان جان لیوا ماہرِ غالبیات سے چھٹکارا پاکر مجھے جو مسرتِ بے پایاں حاصل ہوئی اس کا اظہار غالباً غیرضروری ہے۔
(ادیب اور طنز و مزاح نگار وجاہت علی سندیلوی کے قلم سے)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟