قدیم مالیاتی نظام اور اردو زبان کے محاورے
برصغیر میں مختلف ریاستوں میں کوڑیوں کے علاوہ سونے، چاندی اور تانبے کے سکّے کسی نہ کسی شکل میں تجارت اور خرید و فروخت کے لیے رائج رہے ہیں اور مغلیہ عہد بھی کرنسی کا یہ نظام اسی طرح جاری رہا۔ صدیوں پہلے کوڑیاں بازار اور ہر جگہ مالی لین دین کے لیے استعمال ہوتی […]
برصغیر میں مختلف ریاستوں میں کوڑیوں کے علاوہ سونے، چاندی اور تانبے کے سکّے کسی نہ کسی شکل میں تجارت اور خرید و فروخت کے لیے رائج رہے ہیں اور مغلیہ عہد بھی کرنسی کا یہ نظام اسی طرح جاری رہا۔ صدیوں پہلے کوڑیاں بازار اور ہر جگہ مالی لین دین کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ یہ کوڑیاں دراصل سمندر سے نکالی جانے والی سیپیوں کی ایک خاص قسم تھی جو اب گئے وقتوں کی بات ہے۔
آج کے دور میں ہمارے لیے یہ بات تعجب خیز بھی ہے اور دل چسپ بھی کہ ہندوستان میں قدیم زمانے میں کوڑیاں ان سکّوں کی طرح اس وقت کی کرنسی تھی۔ کوڑیاں کسی ٹکسال میں ڈھلے ہوئی دھات کی طرح تو نہیں تھیں مگر انھیں سرکاری یا شاہی خزانے سے لے کر عام لوگ بھی لین دین کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
اردو زبان و ادب میں مالیاتی نظام کی اس بنیادی شکل نے کوڑی کے علاوہ بھی کئی ناموں سے کہیں ضربُ المثل میں جگہ پائی تو کہیں محاورہ اور کسی فقرہ میں ایسے جڑی گئی کہ آج بھی یہ زبان پر آجاتا ہے۔ اگرچہ مالیاتی نظام میں ان کی دو کوڑی کی حیثیت نہیں رہی لیکن یہ زبان و بیان کا حصّہ ضرور ہیں۔
محققین کے مطابق چالیس کوڑیوں کی مالیت ایک پیسے یا تین پائیوں کے برابر تھی۔ یہی نہیں، صحیح و سالم کوڑیوں کے ساتھ ساتھ خستہ اور ٹوٹی ہوئی کوڑیاں بھی سِکّوں کی طرح چلن میں تھیں اور انھیں پھوٹی کوڑی کہا جاتا تھا۔ یہ گویا اس زمانے کی کرنسی کا سب سے ادنیٰ یونٹ تھا۔ ایک کوڑی تین پھوٹی کوڑیوں کے برابر ہوتی تھیں۔ کوڑیوں اور پھوٹی کوڑیوں کا چلن زمانۂ قدیم سے لے کر 1825ء تک ہندوستان کے کئی علاقوں میں جاری رہا۔ جب تک کرنسی کا اعشاروی نظام لاگو نہیں ہوگیا۔
سِکّوں یا کرنسی کی مالیت اور ان کے نام بھی چوں کہ مالیاتی نظام میں بڑی تبدیلیوں، افراطِ زر یا دیگر ضروریات کے تحت وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں اس لیے آپ نے دیکھا ہو گاکہ اکثر قانونی دستاویزات اور تحریری معاہدوں میں کسی شے کی مالیت کا ذکر یا اس بارے میں رقم کی وضاحت کرتے وقت ’’سکۂ رائج الوقت‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس کی ایک نہایت عام اور سادہ مثال نکاح کے وقت مہر کی رقم کا طے کرنا ہے۔ اسی طرح بعض کاروباری معاہدوں یا ادھار رقم دینے والا وصولی کی مدّت کے ساتھ بمطابق سکّۂ رائج الوقت لکھواتا ہے۔
اب چلتے ہیں ان کوڑیوں یا سِکّوں کے اردو زبان میں بالخصوص محاورات میں استعمال کی طرف۔ یہ مالیاتی اصطلاحات یا نام ہماری روز مرّہ کی زبان اور گفتگو کا حصّہ رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب پھوٹی کوڑی، کوڑی، دام، دمڑی، آنے، پائی جیسے کرنسی کے پرانے نام ہمارے محاوروں میں خوب استعمال کیے جاتے تھے۔ اگر کسی کو کچھ بھی نہ دینا ہوتا تو کہا جاتا تھا کہ ’’میں تجھے پھوٹی کوڑی نہ دوں۔‘‘ کوئی چیز بے حد سستی بیچ دی جائے تو سننے والا تعجب سے کہتا، ’’فلاں شخص نے اپنا مکان کوڑیوں کے مول بیچ دیا۔‘‘ کنجوس شخص کے لیے محاورتاً بولا جاتا ہے، ’’چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے۔‘‘ یا یہ کہ وہ ایسا شخص ہے کہ ’’پائی پائی کا حساب رکھتا ہے‘‘ لیکن خرچ نہیں کرنا چاہتا۔ اس کے علاوہ کسی کو سچّا کہنا ہو یا کھری بات کرنے والا تو کہتے تھے کہ ’’آپ کی بات سولہ آنے سچ ہے۔‘‘ اکثر نکمے نوکر کا ذکر کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ ’’ہمارا نوکر تو دھیلے کا کام نہیں کرتا۔‘‘ انکسار سے کام لینا ہو اور کسی کے آگے خود کو تابع فرمان بتانا مقصود ہو تو یوں کہتے ہیں، ’’جناب میں آپ کا بندۂ بے دام ہوں۔‘‘ لیکن اب ان قدیم سکّوں کی طرح ہماری زبان سے یہ محاورے بھی اتر گئے ہیں اور نئی نسل کی بول چال میں مفقود ہیں۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟