قاضی منہاج سراج جوزجانی: ایک نابغۂ روزگار شخصیت
قاضی منہاج متنوع شخصیت کے مالک تھے اور عربی اور فارسی زبان پر عبور رکھنے کے ساتھ علومِ شرعیہ کا بھی درک رکھتے تھے۔ قاضی منہاج کا علمی و ادبی مرتبہ نہایت بلند تھا۔ منہاج کی عام شہرت عموماً بطور مؤرخ و ادیب کی سی ہے لیکن وہ اپنے وقت کے مشہور قاضی، عالم اور […]
قاضی منہاج متنوع شخصیت کے مالک تھے اور عربی اور فارسی زبان پر عبور رکھنے کے ساتھ علومِ شرعیہ کا بھی درک رکھتے تھے۔ قاضی منہاج کا علمی و ادبی مرتبہ نہایت بلند تھا۔ منہاج کی عام شہرت عموماً بطور مؤرخ و ادیب کی سی ہے لیکن وہ اپنے وقت کے مشہور قاضی، عالم اور معلّم بھی تھے۔
قاضی منہاج سراج جوزجانی کا سنہ پیدائش 1193ء ہے جب کہ ان کی وفات 1260ء میں ہوئی۔ وہ تیرہویں صدی کے مؤرخ تھے جن کا تعلق غوریوں کے دار الحکومت فیروز کوہ سے تھا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ وہ عام طور پر علّامہ منہاج السّراج کے لقب سے مشہور تھے۔ نسلاً وہ افغانی تھے مگر ہندوستان آمد کے بعد اُن کی وجہِ شہرت سلطنتِ دہلی کے خاندان غلاماں کے اہم مؤرخ کے طور پر ہوئی۔ طبقاتِ ناصری ان کی وہ تصنیف ہے جس کا خوب شہرہ ہوا اور انھوں نے یہ سلطان ناصر الدین محمود کے لیے تحریر کی تھی۔ وہ سلطان ناصر الدین محمود کے عہد حکومت میں دربار کے اہم اور بااثر فرد کے طور پر دیکھے جاتے تھے۔ دہلی سلطنت کے عہد میں وہ بلند مراتب پر فائز رہے۔ قاضی منہاج کو ہندوستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے بعد اوّلین مسلم مؤرخین میں شمار کیا جاتا ہے۔ انھوں نے عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں اشعار بھی کہے۔
منہاج سراج کا نام ابو عمرو منہاج الدین عثمان تھا۔ طبقات ناصری کی متعدد شہادتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ منہاج کے اعزہ و اقرباء بہت تھے، لیکن اُن کا ایک ہی بھائی تھا۔ اِسی طرح اُن کی ایک بہن کا بھی پتہ چلتا ہے۔
قاضی صاحب کی جائے پیدائش یعنی فیروزکوہ اُس وقت غوری سلطنت کا پایۂ تخت تھا۔ مولانا منہاج اپنی نسبت جوزجانی لکھتے ہیں حالانکہ انھوں نے کبھی بھی جوزجان میں سکونت اختیار نہیں کی۔ منہاج محض اصل وطن کی نسبت سے خود کو اس طرح جوڑتے ہیں۔ بعضوں نے اسے جرجانی بھی لکھا ہے مگر یہ درست نہیں لگتا۔ الغرض مولانا منہاج کے آبا و اجداد جوزجان کے رہنے والے تھے۔ جوزجان قدیمی ضلع بلخ کے نواح میں واقع غوری خاندان سلطنت کے ماتحت تھا اور یہ خراسان کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا تھا۔
مولانا منہاج کی ابتدائی زندگی پر زیادہ تفصیل تو نہیں ملتی مگر یہ بات مؤرخین کے لیے قابل قبول ہے کہ خود منہاج نے طبقات ناصری میں جا بجا کئی ایسے حوالے دیے ہیں جو اُن کی ذاتی و سفارتی اور سیاسی زندگی کو اُجاگر کرتے ہیں۔ خاندان منہاج ابتدا سے ہی سلاطین سے وابستہ رہا تھا اور اِس حال میں خود منہاج کی تربیت بھی سفارتی و سیاسی انداز میں ہوئی۔ منہاج کی زوجہ ایک علمی و ذمہ دار خاندان کی خاتون تھیں جو سلاطین غور کے دربار میں معزز و محترم تھا جب کہ سن بلوغت تک قاضی منہاج بھی سلاطین فیروز کوہ اور سلاطین غور کے محلات میں تربیت پاتے رہے۔ خود منہاج نے اپنے بچپن اور محل میں تربیت پانے کے حوالہ سے لکھا ہے کہ اِس ملکۂ جہاں نے اِس ضعیف (یعنی خود منہاج) کی پرورش اپنی آغوشِ شاہی میں مثل اپنے فرزندوں کے شاہانہ طریقے پر کی اور میں اُن کی نگرانی میں تربیت پاتا تھا۔
وہ 22 سال کی عمر تک فیروز کوہ میں مقیم رہے۔ تحصیل علم سے فراغت کے بعد منہاج مختلف شہروں کی سیاحت کو گئے۔ بعد میں منہاج کو سلاطین غور کی جانب سے دربارِ سیستان (مقام بُست) میں پہلی بار سفیر بنا کر بھیجا گیا۔ گویا 24 سال کی عمر تک منہاج سفارتی و سیاسی حیثیت سے عملی زندگی میں قدم رکھ چکے تھے۔ منہاج جوانی میں ہی مدبر سیاست دان سمجھے جانے لگے تھے اور بعض اوقات سلاطین و اُمراء کے درمیان چپقلش اور باہمی خصومت کو دور کرنے کے لیے بھی انھوں نے کام یاب کوششیں کیں۔
1226ء میں منہاج نے ہندوستان جانے کا قصد کیا۔ کہتے ہیں کہ وہ سیستان، خراسان سے براستہ درہ گومل و بنیان (موجودہ بنوں) دریائے سندھ پر پہنچے اور کشتی کے ذریعہ سفر کرکے اوچ چلے گئے جو ناصر الدین قباچہ کا دار الحکومت تھا۔ اِس وقت منہاج کی عمر 35 سال تھی اور معلوم ہوتا تھا کہ اِن کی علمی شہرت اِن سے قبل ہی یہاں پہنچ چکی تھی کیونکہ اِسی سال ناصر الدین قباچہ نے انھیں اوچ کے مدرسہ فیروزی کا صدر معلم اور علاؤ الدین بہرام شاہ بن ناصر الدین قباچہ کے لشکر کا عہدہ قضاء اِن کے سپرد کر دیا لیکن چند ماہ بعد سلطان شمس الدین التتمش نے اوچ فتح کر لیا تو اِس کے دامن دولت سے وابستہ ہو گئے اور سلطان کے ساتھ دہلی پہنچ گئے۔
سلطان ناصر الدین محمود کے زمانہ میں مولانا پر گوناگوں نوازشات ہوئیں۔ اِسی سلطان کے اعزاز میں منہاج نے طبقات ناصری تصنیف کی۔ یہ زمانہ منہاج کا دہلی دربار سے قرب کا ہے یعنی قربِ سلطانی کا زمانہ۔ مولانا تیسری بار ہندوستان کے قاضی القضاۃ اور قاضی حضرت دہلی مقرر ہوئے اور طبقات ناصری سے معلوم ہوتا ہے کہ تادمِ آخر اِس عہدہ پر فائز رہے لیکن یہ بات قابل تعجب ہے کہ خود مولانا منہاج نے اپنے آخری ایام کے واقعات کو تحریر نہیں کیا۔ مؤرخین کے نزدیک یہ تعجب خیز ہے کہ اِس نامور عالم کی آخری زندگی اور وفات کے متعلق کوئی تفصیلات دست یاب نہیں۔ صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ طبقات ناصری کی تکمیل یعنی اواخر تک 1260ء میں وہ دہلی میں شاہانہ زندگی بسر کر رہے تھے اور منصبِ قضاء کے عہدے پر فائز تھے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ منہاج ستمبر 1260ء کے بعد فوت ہوئے۔ لیکن یہ بھی محض اندازہ ہی ہے۔ قاضی منہاج کے مدفن کے متعلق بھی کوئی تاریخی روایت موجود نہیں لیکن قیاس ہے کہ وہ آخری عمر تک دہلی میں رہے تھے تو اُن کی تدفین بھی دہلی ہی میں کی گئی ہوگی۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟