سخت گرمی میں دھوپ میں کھڑا رہنے کی سزا، کمسن طالبعلم زندگی بھر کیلیے معذور ہوگیا
استاد کو روحانی باپ کہا جاتا ہے مگر اکثر ہمیں معاشرے میں ایسے سخت دل اساتذہ کے واقعات سننے کو ملتے ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان دنوں دنیا کے مختلف خطوں میں سخت گرمی پڑ رہی ہے اور کئی ممالک میں ہیٹ اسٹروک کے باعث روز درجنوں اموات میڈیا میں رپورٹ ہو […]
استاد کو روحانی باپ کہا جاتا ہے مگر اکثر ہمیں معاشرے میں ایسے سخت دل اساتذہ کے واقعات سننے کو ملتے ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
ان دنوں دنیا کے مختلف خطوں میں سخت گرمی پڑ رہی ہے اور کئی ممالک میں ہیٹ اسٹروک کے باعث روز درجنوں اموات میڈیا میں رپورٹ ہو رہی ہیں۔
تاہم اسی قیادت خیز گرمی کے دوران ملائیشیا میں دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا جہاں ایک ظالم صفت استاد نے 11 سالہ طالبعلم کو مسلسل کئی گھنٹے دھوپ میں کھڑا ہونے کی سزا دی جس کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ بچہ زندگی بھر کے لیے معذور ہوگیا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق یہ واقعہ ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور کے قریبی قصبے امپانگ جایا میں تقریبا ایک ماہ قبل 30 اپریل کو پیش آیا جہاں ایک ظالم استاد نے 11 سالہ طالبعلم کو صبح 10 بجے سے دوپہر ساڑھے 12 بجے تک دھوپ میں کھڑا رکھا۔ شدید گرمی میں مستقل دھوپ میں کھڑا رہنے کے باعث بچے کی حالت بگڑی تو پھر اس کو اسپتال منتقل کرنا پڑا۔
رپورٹ کے مطابق بچے کو ہیٹ اسٹروک کے نتیجے میں اعصابی نقصان پہنچا اور اسپتال نے اس کو پرسن ودھ ڈس ایبلٹی (پی ڈبلیو ڈی) قرار دے دیا ہے۔
متاثرہ بچے کے والدین نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ اسپتال کی جانب سے اس حوالے سے ایک خط بھی جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بچہ اب نارمل نہیں رہا اس لیے اب اس کو خصوصی بچوں کے اسکول بھیجنے کی ضرورت ہے۔
والدہ نے دل گرفتہ لہجے میں بتایا کہ پہلے ان کا بیٹا بالکل صحیح تھا۔ اسکول جاتا۔ دوستوں اور بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلتا تھا لیکن اب وہ خود سے باتیں کرتا رہتا ہے۔
اہل خانہ نے استاد کے خلاف شکایت درج کرانے اور دیوانی مقدمہ دائر کرنے فیصلہ کیا ہے اور ان کے وکیل دنیش متھل نے کہا کہ اس واقعے نے بچے کے والدین، خاص طور پر اس کی 3 ماہ کی حاملہ والدہ کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔
وکیل نے بتایا کہ دیوانی مقدمے کے علاوہ ہم چاہتے ہیں کہ اس میں ملوث استاد پر عدالت میں فرد جرم عائد کی جائے اور اسے قرار واقع سزا دی جائے۔
پولیس نے کیس کی تحقیقات مکمل کر لی ہیں اور نتائج کو مزید کارروائی کے لیے ڈپٹی پبلک پراسیکیوٹر کے دفتربھیج دیا ہے۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟