دو سو معانقے
امریکا میں جس چیز کو میں ترسا ہوا ہوں، وہ ہے گرمیٔ قلب، سچی بات کیوں نہ کہہ دوں، یورپ کی اقوام نے (جن میں اہالیان امریکا شامل ہیں) صاحب دماغی تو ایسی دکھائی ہے کہ قدرت بھی انگشت بدنداں ہے لیکن صاحب دلی ان اقوام میں کمیاب ہے۔ مجھے انگلستان اور امریکا میں مسلسل […]
امریکا میں جس چیز کو میں ترسا ہوا ہوں، وہ ہے گرمیٔ قلب، سچی بات کیوں نہ کہہ دوں، یورپ کی اقوام نے (جن میں اہالیان امریکا شامل ہیں) صاحب دماغی تو ایسی دکھائی ہے کہ قدرت بھی انگشت بدنداں ہے لیکن صاحب دلی ان اقوام میں کمیاب ہے۔
مجھے انگلستان اور امریکا میں مسلسل یہ محسوس ہوا کہ میرے مغربی ہم نشینوں کے دلوں کی بیٹریاں کمزور ہیں اور اہلِ مشرق کے دلوں سے تار جوڑ کر یہ اپنی بیٹریاں چارج کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
انصافاً یہ کہہ دینا بھی ضروری ہے کہ اہلِ مشرق کی روحانی بیٹریوں کی طاقت بھی اب جواب دینے کو ہے، تاہم ہمارے ہاں دل اب بھی گرم ہیں سرد نہیں ہوئے، ہمارا معاشرہ اب بھی ٹھٹھے اور معانقے والا معاشرہ ہے۔
میرا تو اب یہ حال ہے کہ ہر ہم جنس کو اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ معانقہ آمادہ آدمی ہے یا دھکا آمادہ؟ جو نگاہ مجھ سے کہے دفع ہو جا میں اس کی طرف اپنی نگاہ دوسری بار کیوں اُٹھاؤں ، انگریز دو سو سال ہندوستان پر قابض رہا، میرا گمان غلط نہیں کہ دو سو سال میں ہمارے دیس کے لوگوں اور انگریزوں کے درمیان دو سو معانقے بھی نہ ہوئے ہوں گے۔
(معروف اسکالر، ادیب، شاعر اور ماہرِ موسیقی داؤد رہبر کی کتاب پراگندہ طبع لوگ سے ایک پارہ)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟