جب برطانوی حکومت کے خطاب یافتہ علّامہ اقبال پر خوب لے دے ہوئی!

مشہور ہے کہ علامہ اقبال کو اس وقت کی حکومت کی طرف سے ’’سر‘‘ کا خطاب ملا تو انھوں نے اسے قبول کرنے کی یہ شرط رکھی کہ ان کے استاد مولانا میر حسن کو بھی ’’شمس العلماء‘‘ کے خطاب سے نوازا جائے۔ چنانچہ ان کے استاد کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دیا گیا اور […]

 0  0

مشہور ہے کہ علامہ اقبال کو اس وقت کی حکومت کی طرف سے ’’سر‘‘ کا خطاب ملا تو انھوں نے اسے قبول کرنے کی یہ شرط رکھی کہ ان کے استاد مولانا میر حسن کو بھی ’’شمس العلماء‘‘ کے خطاب سے نوازا جائے۔ چنانچہ ان کے استاد کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دیا گیا اور وہ اس کے مستحق بھی تھے۔

لیکن اس وقت برطانوی حکومت اور انگریزوں سے نفرت کا سلسلہ بھی زوروں پر تھا اور عام طور پر یہی سمجھا جاتا تھا کہ بڑے راہ نما اور نمایاں شخصیات برطانوی حکومت کی مراعات اور خطابات کو رد کر دیں گی۔ سو، عام مسلمان تو ایک طرف اکثر مسلمان اکابرین بھی علامہ اقبال کے خطاب یافتہ ہونے پر طنز کرنے لگے۔ ان حالات میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ علامہ برطانوی حکومت سے ’’سر‘‘ کا خطاب قبول کرلیں گے۔ اس بات پر بہت بحث ہوئی اور کئی احباب نے علامہ کو سخت الفاظ میں متوجہ کیا اور اس حوالے سے خطوط لکھے۔ لیکن بعد میں‌ یہ صاف ہوگیا کہ علامہ اقبال کو ان کی علمی اور ادبی خدمات پر حکومت نے ’’سر‘‘ کا خطاب عطا کیا تھا۔

یہاں ہم اس تقریب کا ذکر کررہے ہیں جو علامہ اقبال کو خطاب ملنے پر اظہارِ مسرت کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ یہ سطور محمد حنیف شاہد کی ایک تحریر سے لی گئی ہیں۔

علامہ محمد اقبالؒ کو ’’سر‘‘ کا خطاب ملنے کی خوشی میں 17 جنوری 1923ء کی سہ پہر مقبرۂ جہانگیر پر ایک گارڈن پارٹی منعقد کی گئی۔ تقریب کی صدارت گورنر پنجاب سر ایڈورڈ میکلیگن نے کی۔ تقریب کے میزبان سر ذوالفقار علی خان تھے۔ اس موقع پر لاہور کے علاوہ امرتسر، گوجرنوالہ اور شیخوپورہ وغیرہ سے چھ سات سو افراد مدعو تھے جن میں سر جان مینارڈ، پنجاب حکومت کے وزراء، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی بمباسدر لینڈ، ہائی کورٹ کے جج، اعلیٰ عہدیدار، خطاب یافتہ رؤسا، راجے، نواب، پنجاب کونسل کے ممبر، ڈاکٹر، وکیل، مدیران اخبارات وغیرہ شامل تھے۔

یوں یہ ایک بڑی شاندار تقریب قرار پائی۔ کھانے کے دوران مقامی اسکول کے چند لڑکوں نے اقبالؒ کی نظم ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ پیش کی۔ تقریب کی کامیابی میں میاں فضل حسین نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

علامہ اقبالؒ کو ایک بار گورنر کی جانب سے ’’خان بہادر‘‘ اور پھر ’’شمس العلماء‘‘ کے خطاب کی پیش کش ہوئی۔ علامہ اقبالؒ نے خطاب قبول کرنے میں پس و پیش کیا، تاہم نواب سر ذوالفقار علی خان کے اصرار پر وہ ’’سر‘‘ کے خطاب پر راضی ہوئے تھے۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow