آغا ناصر: منفرد فن کار، بے مثال شخصیت

علم و فنون کی دنیا کے کیسے کیسے گوہرِ نایاب تھے جو ہمیں فکر و نظر کی نئی رفعتوں اور شعور کی بلندیوں تک لے گئے اور فن کی دنیا میں‌ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے شان دار کام کیا۔ آغا ناصر ایک ایسی ہی شخصیت تھے جنھوں نے ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن […]

 0  4
آغا ناصر: منفرد فن کار، بے مثال شخصیت

علم و فنون کی دنیا کے کیسے کیسے گوہرِ نایاب تھے جو ہمیں فکر و نظر کی نئی رفعتوں اور شعور کی بلندیوں تک لے گئے اور فن کی دنیا میں‌ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے شان دار کام کیا۔ آغا ناصر ایک ایسی ہی شخصیت تھے جنھوں نے ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کو کئی پروگرام اور وہ ڈرامے دیے جن کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔

ریڈیو پر ’حامد میاں کے ہاں‘ اور ’اسٹوڈیو نمبر 9‘ اپنے وقت کے مقبول پروگرام تھے جب کہ ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ اور ’’الف نون‘‘ پاکستان ٹیلی ویژن کے لازوال ڈرامے ہیں جن کے ہدایت کار آغا ناصر تھے۔ معروف براڈ کاسٹر اور پروڈیوسر آغا ناصر 12 جولائی 2016ء کو اسلام آباد میں‌ انتقال کر گئے تھے۔ ریڈیو اور پی ٹی وی کے ابتدائی اور سنہرے دور کی تاریخ آغا ناصر کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں‌ ہوسکتی۔

آغا ناصر نے 9 فروری 1937ء میں میرٹھ کے قصبے فرید نگر میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں‌ نے بی اے کا امتحان سندھ مسلم کالج سے پاس کیا اور پھر قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے، اور یہاں آنے کے بعد تاریخ کے مضمون میں جامعہ کراچی سے ایم اے کیا۔ آغا ناصر نے اپنے کیریئر کا آغاز 1955ء میں ریڈیو پاکستان سے بحیثیت براڈ کاسٹر کیا تھا۔ بعد میں وہ اس ادارے میں ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ملک میں ٹیلی ویژن سینٹر کے قیام کے بعد آغا ناصر جیسے قابل اور باصلاحیت براڈ کاسٹر اور پروڈیوسر کو پی ٹی وی سے منسلک ہونے کا موقع ملا اور 1964ء میں انھوں نے نشریاتی ادارے میں اپنا سفر شروع کیا۔ کچھ عرصہ پی ٹی وی کے مینیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی کام کیا جب کہ شالیمار ریکارڈنگ کمپنی اور نیف ڈیک کے سربراہ رہے۔

آغا ناصر ایک علمی و ادبی شخصیت تھے جن کے بارے میں‌ کشور ناہید اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں، "وہ شخص جس نے ساری عمر میڈیا میں گزاری۔ فیض صاحب سے عشق کیا۔ ان کے شعروں اور نظموں کی ایسی تشریح کی کہ ہم جیسے لوگ جو فیض صاحب سے قربت کا دعویٰ کرتے تھے، وہ بھی کتاب پڑھ کر حیران رہ گئے۔ اس کو آپ سب اور ہم آغا ناصر کے نام سے پکارتے، جانتے اور پہچانتے تھے۔ اس نے ایک سال تک موت کو للکارا، صفیہ کی محبت اور بچوں کی خدمت کا امتحان لیا۔ جب اسے اطمینان ہوگیا کہ اب سب سوئے ہوئے ہیں۔ خاموشی سے نیند کے عالم میں اپنی محبتوں، دوستیوں اور کتابوں کو خدا حافظ کہا۔”

1974 میں اسلامی ممالک کی کانفرنس کا سارا انتظام بھی آغا صاحب کے ذمہ تھا۔ اس سے قبل بھارت سے جنگ کے زمانے میں انھوں نے عالی جی اور دیگر شعرا سے قوم کا لہو گرمانے اور محاذ پر لڑنے والے اپنے فوجی بھائیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے نغمات لکھوائے اور انھیں پی ٹی وی سے نشر کیا گیا۔

خواجہ معین الدّین کے تحریر کردہ سماجی طنز و مزاح پر مبنی ڈرامہ ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ کے ہدایت کار آغا ناصر تھے۔ 1966ء میں اس ڈرامے نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا۔ اس سے قبل پی ٹی وی کے ناظرین ڈرامہ سیریز ’’الف نون‘‘ سے لطف اندوز ہوئے اور اس کے ہدایت کار بھی آغا ناصر تھے۔ انھوں نے ایک خودنوشت سوانح آغا سے آغا ناصر کے عنوان سے یادگار چھوڑی۔ اس میں آغا ناصر نے اپنی یادوں، باتوں اور ملاقاتوں پر مبنی تذکرے، دورانِ ملازمت پیش آنے والے واقعات کو رقم کیا اور اس خودنوشت کے علاوہ ان کی کتابیں ’گمشدہ لوگ‘، ’ گلشنِ یاد‘ اور’ہم، جیتے جی مصروف رہے‘ کے نام سے سامنے آئیں۔

حکومتِ پاکستان نے آغا ناصر کو فن کی دنیا میں خدمات پر تمغائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow