مقہور فلسطینیوں کو کون بچائے گا؟
دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک موجود ہو جہاں مسلمان جرمِ مسلمانی کی سزا نہ بھگت رہے ہوں۔ یہ سزا کہیں اخلاقیات کے پردے میں دی جا رہی ہے اور کہیں اخلاقیات کی دھجیاں اڑا کر اس کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ گو کہ فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی مظالم کوئی نئی بات نہیں۔ […]
دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک موجود ہو جہاں مسلمان جرمِ مسلمانی کی سزا نہ بھگت رہے ہوں۔ یہ سزا کہیں اخلاقیات کے پردے میں دی جا رہی ہے اور کہیں اخلاقیات کی دھجیاں اڑا کر اس کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
گو کہ فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی مظالم کوئی نئی بات نہیں۔ جب سے اسرائیل کو اس حقیقت سے آشنائی ہوئی ہے کہ اس کے اردگرد موجود مسلم عرب ممالک کے لیے ان بے چارے فلسطینیوں کی حیثیت سوائے ’’اضافی بوجھ‘‘ کے اور کچھ نہیں اس نے ان کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک شروع کر دیا ہے۔ 1972ء سے آج تک شاید ہی کوئی دن ایسا ہو گا جب ان بدقسمت فلسطینیوں نے سُکھ کا سانس لیا ہو۔’’بالفور‘‘ کے نتیجے میں قائم ہونے والی ناجائز یہودی ریاست اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں کو کبھی برابر کے انسان نہیں سمجھا۔ درجنوں عالمی معاہدوں کو کبھی جوتے کی نوک پر رکھا، صابرہ و شتیلہ کے کیمپوں کا قتل عام اور درندگی ماضی کی بات نہیں حال کا قصہ ہے کیونکہ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور بظاہر اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اسرائیلی حکومت اپنا ایجنڈا پورا نہ کر لے۔
برطانوی رکن پارلیمنٹ جارج گیلو وے نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ فلسطینیوں کی بربادی اور تباہی کے ’’رائٹرز‘‘ برطانوی اراکینِ پارلیمنٹ ہیں کیونکہ فلسطین کی تباہی کے تمام ’’اسکرپٹ‘‘ اس پارلیمنٹ نے ’’انڈورس‘‘ کئے ہیں۔ جنگِ عظیم کے زمانے سے اب تک برطانیہ نے اسرائیل کی ہر جائز نا جائز خواہش کو اپنی پارلیمنٹ کے ذریعے دنیا بھر میں مسلط کرنے کی کوشش کی ہے۔ اِس لئے ہمیں (یعنی برطانوی اراکینِ پارلیمنٹ کو) کھلے دِل سے اپنی غلطی کا اعتراف کرنا چاہئے۔
گزشتہ کئی روز سے پھر وحشت و بربریت کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران طیاروں سے بمباری اور میزائل حملوں کے ذریعے بچوں اور خواتین نہتے فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا۔اسرائیل کو اس کے مذموم عزائم سے روکا نہ گیا تو وہ اپنے ریاستی وجود کو تحفظ دینے کے نام پر غزہ کو تباہی و بربادی کا نمونہ بنا ڈالے گا- دنیا کو یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ فضائی حملوں کے بعد اسرائیل غزہ میں زمینی دہشت گردی کے ذریعے ظلم و جبر کے جو پہاڑ توڑرہا ہے، ان کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں امن و سلامتی کا تصوّر ختم ہو کر رہ جائے گا۔
اسرائیلی جارحیت کے خلاف عالمی برادری کے رد ِعمل پر نگاہ ڈالی جائے تو اقوام متحدہ کی اپیلوں کے سوا کہیں سے کوئی جاندار آواز بلند نہیں ہو رہی- لندن اور نیو یارک سمیت بعض یورپی اور امریکی شہروں میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں، امریکی صدر باراک اوباما(اس وقت یہ منصب اوباما کے پاس تھا) نے جنگ بندی کے لیے کردار ادا کرنے کا اعلان تو کر رکھا ہے تاہم عملی طور پر اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی- فرانس اور جرمنی جیسے ممالک اسرائیل سے اظہار یکجہتی کررہے ہیں- عالمی برادری کی اس دورُخی اور منافقت سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ غزہ کی 41 کلو میٹر لمبی اور چھ سے بارہ کلو میٹر چوڑی پٹی پر رہنے والے اٹھارہ لاکھ افراد کو نقل مکانی یا اسرائیلی بمباری میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ حماس کے خلاف کارروائی کے نام پر اسرائیل فضائی اور زمینی حملوں کا سلسلہ جاری رکھے گا اور عالمی برادری اس پر زیادہ سے زیادہ مذمت کی قرار داد پیش کرتی رہے گی۔ دُنیا بھر میں انسانی حقوق کی علمبردار، دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ٹھیکیدار اور شدت پسندی سے لڑنے والی عالمی قوتوں کی مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم پر خاموشی کا نتیجہ ہے کہ مختلف ممالک میں عسکری تنظیمیں طاقت کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتی ہیں۔ فلسطینیوں پر جاری ظلم کے دوسرے پہلو کو دیکھا جائے تو کرۂ ارض پر پھیلے 56 اسلامی ممالک بھی صہیونیت کے اس تماشے کو خاموش تماش بین کی مانند دیکھ رہے ہیں۔ انڈونیشیا سے سعودی عرب اور مراکش سے پاکستان تک کے حکمران اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کی مذمت کو کافی سے زیادہ خیال کررہے ہیں- صورتحال پر غور اور مشترکہ مذمتی قرار داد کے لیے گزشتہ دنوں او آئی سی کا اجلاس بھی منعقد ہوا تاہم حقیقت یہی ہے کہ ایسے اجلاسوں اور مذمتی بیانات سے اسرائیل جیسی ظالم ریاست کی سوچ میں تبدیلی ممکن نہیں۔
غزہ میں جاری خونریزی دراصل اُمتِ مسلمہ کی قیادت کے لیے لمحۂ آزمائش ہے- دنیا میں اگر اُمت ِاسلامیہ کا وجود ہے تو اس ریاستی تشدد کے خلاف تعزیت اور مذمت پر اکتفا کرنے کے بجائے اسے روکنے کے لیے اپنی قوت کو بروئے کار لانے کی تدبیر کرے۔ دنیا کو احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ معدنی وسائل سے افرادی قوت اور جغرافیائی وحدت سے ذہنی ہم آہنگی تک اہلِ اسلام میں کامل یکسوئی ہے جس لمحے عالمی برادری کو یہ احساس ہو گیا اگلے ہی لمحے فلسطین تک مسلمانوں کے حقوق محفوظ ہو جائیں گے۔
اسرائیل نے جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی اپیلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غزہ پر اپنا تباہ کن حملہ اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک جنوبی اسرائیل کے ان شہروں میں امن و سکون قائم نہیں ہو جاتا جو فلسطینی راکٹوں کی زد میں ہیں۔ مغربی دُنیا اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے- یہ ہماری بدقسمتی ہے یا سفارتی نااہلی کہ وہ لوگ جنہیں فلسطین کا پاسبان ہونا چاہیے تھا آج مغرب کے عشرت کدوں میں اپنی جوانیاں اور دولت برباد کر رہے ہیں-
(معروف ادیب اور کالم نگار طارق اسماعیل ساگر کا یہ مضمون 2014 میں شایع ہوا تھا، جس میں بیان کردہ حقائق اور معلومات کو چھوڑ دیا جائے تو آج وہی حالات ہمارے سامنے ہیں)
آپ کا ردعمل کیا ہے؟