برتولت بریخت: اچھوتا اور متاثر کن ڈرامہ نگار
بیسویں صدی کے اوائل میں جرمن ادب کی چند اہم تحریکوں میں نوکلاسیکیت، نو رومانویت، علامتیت اور سب سے بڑھ کر اظہاریت شامل تھیں جس میں نفسیاتی مسائل خاص طور پر نمایاں ہوئے۔ ادب کے جدید دور کا سب سے متاثر کن اور اچھوتا ڈرامہ نگار برتولت بریخت (Bertolt Brecht) تھا۔ ایک اظہاریت پسند کے […]
بیسویں صدی کے اوائل میں جرمن ادب کی چند اہم تحریکوں میں نوکلاسیکیت، نو رومانویت، علامتیت اور سب سے بڑھ کر اظہاریت شامل تھیں جس میں نفسیاتی مسائل خاص طور پر نمایاں ہوئے۔ ادب کے جدید دور کا سب سے متاثر کن اور اچھوتا ڈرامہ نگار برتولت بریخت (Bertolt Brecht) تھا۔ ایک اظہاریت پسند کے طور پر اپنا ادبی سفر شروع کرنے والے برتولت بریخت نے جلد ہی ایک مخصوص انداز اپنا لیا اور اسٹیج کے ذریعے اس کی شہرت اور مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔ وہ اس میڈیم کو سیاسی اور اخلاقی سطح پر شعور پیدا کرنے کا ذریعہ سمجھتا تھا۔
بیسویں صدی کے معروف جرمن شاعر، ڈراما نویس اور تھیٹر ڈائریکٹر برتولت بریخت نے 14 اگست 1956 کو مشرقی برلن میں وفات پائی۔ اسے ڈراما نگاری نے عالمی سطح پر شہرت دی۔ بریخت 10 فروری 1898ء کو ریاست بویریا کے ایک قصبے میں پیدا ہوا اور نوعمری میں اس نے پہلی عالمی جنگ دیکھی۔ تمثیل نگاری اور ڈراما نویسی میں دل چسپی لینے کے ساتھ وہ میونخ یونیورسٹی سے طب کی تعلیم حاصل کرتا رہا۔ بیسویں صدی کے یورپی ڈراما نویسوں میں اہم مقام حاصل کرنے والے بریخت نے تھیٹر کی دنیا میں نئے اور انقلابی تجربات کیے۔ اسے سراہا بھی گیا اور اس کے کام اور اسلوب پر تنقید بھی کی گئی۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام سے متنفر اور انسانوں سے محبّت کرنے والا ایسا تخلیق کار تھا جسے یورپ اور امریکہ میں بھی پذیرائی ملی۔
1920ء کے بعد کے دور میں بریخت نے اظہاریت یا ایکسپریشنزم کی روایت کو اپنایا اور اپنا مشہور ڈراما ’’آدمی، آدمی ہے‘‘ لکھا۔ پھر اس نے رزمیہ تھیٹر کو ترقی دی۔ اس نے ڈرامہ کے لیے سیٹ بنانے پر توجہ دی اور اسے حقیقت سے قریب تر کیا۔ اس میں موسیقی کو بھی اہمیت دی۔ برتولت بریخت شاعر بھی تھا اور اپنے گیت خود لکھتا تھا۔ اس کا ایک ڈراما تین پینی کا اوپرا یورپ و امریکہ میں بے حد مقبول ہوا اور ایک تھیٹر میں مہینوں اسٹیج کیا جاتا رہا۔ یہ ڈراما سب سے پہلے 1928ء میں پیش کیا گیا تھا۔ اس کی موسیقی کرٹ ویل نے ترتیب دی تھی۔ اس میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اس کی فکر نمایاں ہے۔
بریخت فاشزم کا سخت مخالف تھا چنانچہ 1932ء میں ہٹلر برسرِ اقتدار آیا تو اس نے ترک وطن کرکے پہلے ڈنمارک اور پھر امریکہ میں سکونت اختیار کر لی۔ یہاں اس نے دو نہایت اہم ڈرامے ’’ماں کی ہمت اور اس کے بچے‘‘ اور ’’شت زوان کی عورت‘‘ لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ 1948ء میں بریخت مشرقی جرمنی لوٹ آیا اور ڈراموں کا ایک الگ تھیٹر قائم کرلیا۔ یہاں 1955ء میں اس نے قفقاز کے چاک کا دائرہ نامی رزمیہ پیش کیا جو اس صنف کا نہایت اعلیٰ نمونہ ہے۔ برتولت بریخت کے ڈراموں کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جو اس کی مقبولیت کا ثبوت ہے۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟