سفید چھڑی کا عالمی دن
اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام ہر سال پندرہ اکتوبر کو سفید چھڑی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ 1964ء میں سفید چھڑی کو پہلی مرتبہ نابینا افراد کی شناخت اور ان کے لیے بطور سہارا منتخب کرنے سے شروع ہوا۔ اس کے بعد ہر برس اس دن کی مناسبت سے […]
اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام ہر سال پندرہ اکتوبر کو سفید چھڑی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ 1964ء میں سفید چھڑی کو پہلی مرتبہ نابینا افراد کی شناخت اور ان کے لیے بطور سہارا منتخب کرنے سے شروع ہوا۔
اس کے بعد ہر برس اس دن کی مناسبت سے سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے بصارت سے محروم افراد کے متعلق آگاہی دینے کے لیے سیمینار اور ریلیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے کے نابینا افراد کو درپیش مسائل اور مشکلات سے لوگوں کو آگاہی حاصل ہو اور وہ ان کے مددگار بنیں۔ اس کے ساتھ اس دن کی مناسبت سے یہ کوشش بھی کی جاتی ہے کہ بصارت سے محروم افراد کا سہارا بن کر ذمہ دار اور مفید شہری بھی بنایا جاسکے۔
سفید چھڑی نابینا افراد کی محتاجی کی علامت ہے۔ اسے کسی کے ہاتھ میں دیکھنے والا یہ جان لیتا ہے کہ سامنے والا مجبور اور بے بس انسان ہے اور اگر کسی موقع پر اسے مدد چاہیے تو اس کی ہر ممکن مدد کریں۔ سفید چھڑی تھامے نابینا افراد کو راستہ بتائیں، اور ان کو جس مقام پر جانا ہے وہاں جانے میں مدد دیں۔
پہلی مرتبہ سفید چھڑی کو جیمس بکس نامی ایک فوٹو گرافر نے اپنی بصارت کھو جانے کے بعد استعمال کیا تھا۔ وہ 1921ء میں ایک حادثے میں نابینا ہوگیا تھا۔ یہ پہلا شخص تھا جس نے اپنی چھڑی کو سفید رنگ کروا لیا اور یہ بات علاقہ کے لوگوں میں پھیل گئی۔ وہ چاہتا تھا کہ کوئی ایسی نشانی ہو اور اس چھڑی کے رنگ سے لوگ سمجھ لیں کہ وہ نابینا ہے اور اسے راستہ دیں۔ 1930ء میں ایک شخص نے لائنز کلب میں یہ خیال پیش کیا کہ نابینا افراد کے لیے چھڑی کا سفید رنگ مخصوص کردیا جائے اور لوگوں کو اس بارے میں آگاہی دی جائے تاکہ نابینا افراد کو مشکلات کم سے کم پیش آئیں۔ اس کے بعد ہر سال 15 اکتوبر کو وائٹ کین سیفٹی ڈے منایا جانے لگا۔ صدر جانسن پہلے شخص تھے جنہوں نے اس کو عام کیا اور اس سے متعلق بل کو منظور کیا۔ پاکستان میں یہ دن پہلی مرتبہ پندرہ اکتوبر 1972 ء کو منایا گیا۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں نابینا افراد کی تعداد تقریباً تین کروڑ 60 لاکھ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دو دہائیوں بعد یہ تعداد 11 کروڑ سے تجاوز کرسکتی ہے۔ پاکستان میں تقریباً 20 لاکھ افراد بینائی سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ یہاں اندھے پن کی شرح 1.08 ہے، جب کہ پاکستان میں جزوی نابینا افراد کی تعداد تقریباً 60 لاکھ کے قریب ہے۔ اندھے پن یا بصارت کی خرابی کی مختلف وجوہ ہیں۔ ان میں آنکھوں کے کئی امراض کے علاوہ دیگر بیماریاں، آلودگی اور ناقص خوراک وغیرہ شامل ہیں جن کی وجہ سے انسان بتدریج نابینا پن کی طرف جاسکتا ہے۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟