جینی کا ایک خط!
جینی، عظیم فلسفی کارل مارکس کی شریکِ حیات ہی نہیں اس کی جدوجہد میں ثابت قدم ساتھی بھی تھی۔ وہ ایک امیر کبیر گھرانے کی فرد تھی لیکن پے در پے اولاد کی موت کا دکھ جھیلا اور کارل مارکس کے ساتھ رہتے ہوئے نہایت مشکل زندگی بسر کی اور مفلسی کا عذاب سہتی رہی۔ […]
جینی، عظیم فلسفی کارل مارکس کی شریکِ حیات ہی نہیں اس کی جدوجہد میں ثابت قدم ساتھی بھی تھی۔ وہ ایک امیر کبیر گھرانے کی فرد تھی لیکن پے در پے اولاد کی موت کا دکھ جھیلا اور کارل مارکس کے ساتھ رہتے ہوئے نہایت مشکل زندگی بسر کی اور مفلسی کا عذاب سہتی رہی۔
1814 میں جنم لینے والی جینی کا گھرانہ جرمنی کی سیاست و میدان سپہ گری میں خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ جینی ایک اعلیٰ خاندانی پس منظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی تھی جب کہ کارل مارکس کا خاندان بھی اہلِ ثروت خاندان تھا۔ جینی اور کارل مارکس کے خاندانوں کے درمیان کافی قریبی تعلقات تھے۔ جینی ابھی جوانی کی حدود میں قدم بھی نہ رکھ پائی تھیں کہ ان کی دوستی کارل مارکس کی بہن سے ہوگئی۔ کارل مارکس کی عمر 18 اور جینی کی عمر 22 برس تھی جب ان دونوں کی منگنی کر دی گئی۔ اور پھر جینی کے سگے بھائی کی مخالفت کے باوجود ان دونوں کی شادی 1843 کو انجام پائی۔
انسان کی اچھی زندگی اور ذہنی سکون کے لیے مالی آسودگی لازمی ہے مگر کارل مارکس اور جینی وقت کے ساتھ اس سے محروم ہوتے گئے۔ کارل مارکس کو اپنے نظریات اور عوام دوستی کی وجہ سے جرمنی سے راہِ فرار اختیار کرنا پڑی اور مشکلات نے ان کا گھیراؤ کرلیا۔ بات فقط گھر میں مفلسی تک محدود نہ تھی بلکہ سانحات بھی ان کے لیے امتحان ثابت ہوتے رہے۔ کارل مارکس اور جینی کے بچّے وفات پاتے گئے اور عالم یہ تھا کہ تدفین کے لیے گھر میں رقم نہ ہوتی تھی۔ وہ دوست احباب اور پڑوسی کی مدد سے تدفین کرتے، مگر وفا شعار جینی کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائی بلکہ وہ اپنے محبوب شوہر کا حوصلہ بڑھاتی رہی۔
مارکس کی انقلابی جدوجہد میں ایک خاموش کارکن کی حیثیت سے جینی بھی حصے دار تھی۔ اس کی بیوی شریکِ غم، مہربان، راز دار سب ہی کچھ تھی اور مارکس کو ہمیشہ اس کا احساس رہا۔ مارکس کے فکر و خیال کے حامی اور اس کے بہت قریبی دوست اور مفکر اینگلز نے جینی کے جنازے میں کہا تھا، ’’اس خاتون کی ذاتی اوصاف کے بارے میں کیا کہوں کہ اس کے دوست اس کی خوبیوں کو کبھی نہ بھول سکیں گے، اگرکوئی عورت ایسی تھی جو دوسروں کو خوش کرکے سب سے زیادہ خوش ہوتی تھی وہ صرف جینی مارکس تھی۔‘‘
پے در پے اولاد کے صدمات و مفلسی کے باعث جینی 2 دسمبر 1882 کو وفات پا گئی تھی۔ ستم یہ ہوا کہ کارل مارکس کو اپنی محبوب بیوی کے جنازے میں شرکت کی ڈاکٹر نے اجازت نہ دی، کیونکہ کارل مارکس خود شدید علیل تھے، جینی کو سپردخاک کیا جا رہا تھا اور کارل مارکس اس تقریب میں شریک نہ تھے۔
خورشید جاوید کی کتاب "انقلابی سیاسی نظریات” سے یہ اقتباس ہمیں ایک عظیم مفکر اور اس کی شریکِ حیات اور بے لوث ساتھی کے بارے میں آگاہ کرتا ہے، ملاحظہ کیجیے۔
"ان تمام حالات کا تذکرہ جینی کے خطوط میں موجود ہے۔ ایک خط میں وہ لکھتی ہے۔”
"1852ء کے ایسٹر پر ہماری ننھی فرناسسکا شدید نزلے کا شکار ہوگئی۔ تین رات اور دن وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں گرفتار سسکتی رہی۔ اس کی تکلیف دیکھی نہ جاتی تھی۔ جب اس نے دم توڑ دیا تو اس کی ننھی سی نعش کو عقبی کمرے میں رکھا اور سامنے کے کمرے میں فرش پر ہم نے اپنے بستر بچھائے۔ تینوں بچے ہمارے ساتھ لیٹ گئے۔ ہم سب اس ننھے سے فرشتے کے لیے رو رہے تھے جس کا جسد بے جان پچھلے کمرے میں پڑا تھا۔ بے چاری ننھی کی موت ایسے حالات میں واقع ہوئی کہ جب ہم فاقہ کشی کے دن کاٹ رہے تھے۔ ہمارے جرمن دوست بھی ہماری کچھ مدد نہ کرسکے۔ ارنسٹ جونز نے جو ہمارے یہاں آیا کرتا تھا امداد کا وعدہ کیا لیکن کچھ بھی فراہم نہ کرسکا۔ میں اپنے دل میں درد کی دنیا لیے ایک فرانسیسی پناہ گزین کے ہاں گئی جو ہمارے پڑوس میں رہتا تھا اور ہمارے یہاں آیا کرتا تھا۔ میں نے اسے اپنی بپتا سنائی اور مدد مانگی۔ اس جواں مرد نے نہایت دل سوزی کے ساتھ مجھے دو پونڈ دیے۔ اس رقم سے ہم نے اس تابوت کا انتظام کیا جس میں ہماری پیاری بچی ابدی نیند سورہی ہے۔ جب وہ پیدا ہوئی تھی تو اس کے لیے ہمیں گہوارہ نہ مل سکا اور اب اس کے تابوت کے لیے کیا کچھ نہ کرنا پڑا۔”
جینی مارکس جرمن امراء کے پروشین خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ ان دنوں بھی جب وہ برطانیہ میں فاقہ کشی کی زندگی گزار رہی تھی تو اس کا بھائی پرشیا کا وزیرِ داخلہ تھا۔ لیکن اپنے خاوند سے محبت اور اس کے مقصد سے لگن نے اسے بدترین حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ بخشا۔ اس لیے ایک خط میں جینی نے لکھا۔
"یہ مت خیال کرنا کہ میں ان پریشانیوں کے سامنے جھک جاؤں گی۔ میں جانتی ہوں کہ ہماری کشمکش کچھ ہمارے ساتھ خاص نہیں ہے۔ مجھے اس بات سے دلی خوشی ہے کہ میرا پیارا شوہر میری زندگی کا سہارا بھی میرے ساتھ ہے۔ اس بات سے البتہ مجھے دکھ ہوتا ہے کہ اسے غیر معمولی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی امداد کا کچھ انتظام نہ ہوسکا۔ وہ جو دوسروں کی مدد کرنے میں دلی خوشی محسوس کرتا رہا ہے اب خود محتاج ہے۔”
بدترین حالات میں بھی اس کی عالی ظرفی کم نہ ہوئی۔ جینی اپنے قیمتی کپڑے، زیور، اور برتن گروی رکھ کر اور بیچ کر ان انقلابیوں کے لیے نان نفقہ کا انتظام کرتی رہی جو مرکزی و شمالی یورپ سے بھاگ کر لندن میں پناہ لے رہے تھے۔ ان کے کھانے کی میز پر صبح و شام ان تباہ حال غریب الوطنوں کا ہجوم رہتا۔
1856ء میں جینی کو اپنے رشتہ داروں کی وراثت میں سے حصہ ملا اور وہ اس قابل ہوئے کہ لندن سے باہر ٹاؤن میں ایک بہتر گھر میں شفٹ ہوگئے۔ 2 دسمبر 1881ء کو جینی، مارکس کو چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھی۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟