ثالیس: قدیم دور کا یونانی سائنس داں

زمانۂ قدیم میں بھی مختلف علم و فنون میں یوں تو کئی نام کائنات اور اشیاء کے علاوہ حیاتِ انسانی اور جانداروں کے وجود پر غور و فکر اور اپنی دانش سے نکتہ بینی، منطق تراشنے اور ایجاد کرنے کے لیے جانے گئے ہوں گے، لیکن صدیوں‌ کے سفر میں‌ ان کا نام اور کام […]

 0  5
ثالیس: قدیم دور کا یونانی سائنس داں

زمانۂ قدیم میں بھی مختلف علم و فنون میں یوں تو کئی نام کائنات اور اشیاء کے علاوہ حیاتِ انسانی اور جانداروں کے وجود پر غور و فکر اور اپنی دانش سے نکتہ بینی، منطق تراشنے اور ایجاد کرنے کے لیے جانے گئے ہوں گے، لیکن صدیوں‌ کے سفر میں‌ ان کا نام اور کام کہیں کھو گیا مگر چند خوش قسمت اہلِ علم ایسے ہیں‌ جن کے بارے میں‌ معلومات ہم تک پہنچ سکی ہیں انہی میں‌ ایک نام ثالیس ملطی (Thales) کا ہے۔

تاریخ و تحقیق کی رو سے ثالیس ملطی دنیا کا تیسرا قدیم ترین سائنس دان ہے جس کا تذکرہ تاریخ نے محفوظ رکھا ہے۔ قدیم یونانی مؤرخ ہروڈوٹس نے بطور سائنس داں اس کا تذکرہ کیا تھا۔ ثالیس 429 قبلِ مسیح میں پیدا ہوا اور معلوم ہوا کہ اس کا جائے پیدائش ملطوس تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ ایشیائے کوچک کا رہنے والا تھا۔ لیکن ایک خیال ہے کہ اس دور میں یونانی سلطنت اتنی پھیلی ہوئی تھی کہ ملطوس بھی اس قلمرو میں شامل رہا۔ اسی بنیاد پر محققین کہتے ہیں کہ ثالیس کا وطن یونان تھا اور اس کی زندگی کا بڑا حصّہ بھی یونان ہی میں‌ گزرا۔ یونان اس دور میں‌ بھی علم و فضل میں یکتا اور بالخصوص اس مٹی نے فلسفہ و منطق کے میدان میں کئی یگانہ روزگار پیدا کیے۔ لیکن ملطوس میں آنکھ کھولنے والے ثالیس نے بعد اس سرزمین کو اپنایا تھا۔ اس کا باپ ایک دولت مند شخص تھا اور تجارت کی غرض سے مصر بھی گیا جو اس دور میں علم و دانش کا ایک اور مرکز تھا۔ ثالیس نے بھی مصر کا سفر کیا اور وہاں کے علماء سے تعلیم حاصل کی، اس نے بابلی علوم پر عبور حاصل کیا۔ ثالیس نے اگرچہ چند مصری اساتذہ سے سائنس، فلسفے اور ریاضی کی تعلیم حاصل کی لیکن طبعاً وہ مقلد نہ تھا۔ وہ ایک ایسا نکتہ بیں تھا جس نے ذاتی مشاہدے اور غور و فکر سے اس دور میں کئی پیچیدہ سوالات اور مسائل کا حل پیش کرنے کی کوشش کی۔

تاریخ بتاتی ہے کہ ثالیس نے سورج گرہن اور چاند گرہن کی اصل وجہ بیان کی۔ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے اس نے کامل سورج گرہن کے متعلق جو 585 قبل مسیح کو ہونے والا تھا، حساب لگا کر اس کی صحیح تاریخ معلوم کی اور برسوں پہلے اس تاریخ کا اعلان کر دیا۔ جب اس تاریخ کو عین دن کے وقت رات کا سا اندھیرا چھا گیا تو اس دور کے علماء اور ہر خاص و عام ثالیس کے علم و فن کا معترف ہوگیا اور اس کی عظمت لوگوں کے دلوں میں بیٹھ گئی۔

ثالیس نے سورج کے متعلق پہلا یہ انکشاف کیا کہ وہ لاکھوں میل چوڑا ہے۔ اس وقت ظاہر ہے لوگ سورج کو دیکھ کر اسے ایک تھال سے مشابہ دہکتی اور چمکتی ہوئی چیز سمجھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ سورج دیکھنے میں جتنا بڑا ہے، اگر اسے قریب سے دیکھیں تو بھی اسی طرح نظر آئے گا۔ ثالیس نے اسے قبول نہ کیا اور اس نے جو خیال یا رائے قائم کی وہ اس دور میں بغیر آلات اور پیمائشی طریقے کے اس کے غور و فکر کا نتیجہ تھی اور یہ اس کی عقل مندی اور سائنسی فکر کی غماز تھی۔

ثالیس ملطی سے پہلے شمسی سال جس کے مطابق موسم بدلتے ہیں 360 دن کا سمجھا جاتا تھا۔ ثالیس نے سب سے پہلے اسے 365 دن کا بنایا اور یہ صحیح اندازہ بھی اس کی ہیئت دانی کا کمال اور دانائی و حکمت کا روشن ثبوت ہے لیکن اس کی تحقیق اور جستجو کا دائرہ ہیئت کے علاوہ دیگر علوم پر بھی محیط تھا۔ اس نے سب سے پہلے ان ہندسی اصولوں کی تصدیق کی جنھیں تین صدیوں بعد اقلیدس نے مرتب کیا۔ مثلاً یہ دعویٰ کہ متساوی الساقین مثلث کے بنیادی زاویے برابر ہوتے ہیں۔ ثالیس سے اقلیدس تک اور اس سے 1643 میں سر آئزک نیوٹن کے عناصرِ علمُ الہندسہ نامی کتاب تک عملی جستجو کا تسلسل ہے جنھوں نے جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی راہ ہموار کی۔ تاہم اس سائنس داں کے بعض نظریات بعد میں غلط بھی ثابت ہوئے اور اس میں کائنات کا مرکز زمین کو قرار دینا اور پانی کو کائنات کا منبع قرار دینا شامل ہیں۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow