طیارہ حادثے کے مسافر 72 دن کیسے زندہ رہے؟ دل دہلا دینے والا سچا واقعہ
طیاروں کے ہونے والے اکثر حادثات میں شاذو نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی خوش قسمت مسافر زندہ بچ جائے، لیکن ایک ایسی مثال ایسی بھی ہے کہ جہاں موت سامنے نظر آنے کے باوجود کچھ لوگوں نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور زندہ بچنے میں کامیاب رہے۔ ایک ایسا ہی خوفناک […]
طیاروں کے ہونے والے اکثر حادثات میں شاذو نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی خوش قسمت مسافر زندہ بچ جائے، لیکن ایک ایسی مثال ایسی بھی ہے کہ جہاں موت سامنے نظر آنے کے باوجود کچھ لوگوں نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور زندہ بچنے میں کامیاب رہے۔
ایک ایسا ہی خوفناک فضائی حادثہ 13 اکتوبر1972 میں یوروگوئین ایئر فورس کی پرواز 571 کو پیش آیا جس میں موجود زیادہ تر مسافر مرنے سے تو بچ گئے لیکن بعد ازاں شدید بھوک اور پیاس نے ان میں سے بہت ساروں کی جان لے لی۔
حادثہ کب اور کہاں پیش آیا
اپنی نوعیت کا یہ عجیب و غریب اور دردناک واقعہ 52سال قبل 1972 کو ارجنٹینا میں پیش آیا تھا یوروگوئین ایئر فورس کے طیارے میں رگبی ٹیم اور ان کے اہل خانہ سوار تھے جو دوران پرواز ایک برفانی پہاڑ کی چوٹی سے ہلکا سا ٹکرایا اور توازن برقرار نہ رکھتے ہوئے برف پر پھسل گیا اس دوران اس کے دونوں پر ٹوٹ گئے تاہم زیادہ تر مسافر مرنے سے محفوظ رہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس سچے واقعے کی بنیاد پر بعد ازاں ہالی وڈ میں ایک فلم بھی بنائی گئی جس میں جہاز حادثے میں پیش آنے والے واقعات کو ہُو بہو عکس بند کیا گیا۔
اس بد قسمت طیارے میں 40 افراد سوار تھے جن میں سے 19 کا تعلق کرسچن کلب رگبی یونین کی ٹیم اور ان کے اہل خانہ سے تھا۔ طیارے کو حادثہ ایک پہاڑی سلسلے میں پیش آیا تھا جہاں حد نگاہ پہاڑ ہی پہاڑ تھے۔
چونکہ حادثے کا مقام بہت دور دراز علاقہ تھا اس موقع پر کئی مسافر موقع پر ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جو بچ گئے وہ ایک خطرناک اور سخت ترین امتحان میں پھنس گئے، جہاں بچنے کی امید بہت کم تھی۔
اس حادثے میں بچ جانے والے افراد نے ناقابلِ تصور مشکلات کا سامنا کیا، جن میں شدید سردی، محدود خوراک اور زخمی مسافروں کی تکالیف شامل تھیں، لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود وہ ثابت قدم رہے اور بحیثیت انسان اپنی بے پناہ طاقت کا آخری وقت تک مظاہرہ کیا۔
زندگی اور بقا کی جدوجہد
بچ جانے والوں نےِ زندہ رہنے کیلئے مسلسل اور طویل جدوجہد کی، وہ منفی درجہ حرارت، بھوک اور زخموں سے دوچار رہے۔ ابتداء میں انہوں نے طیارے کے ملبے اور اس میں موجود دستیاب محدود سامان پر انحصار کیا، لیکن جیسے جیسے دن ہفتوں میں بدلتے گئے، ان کے وسائل کم ہوتے چلے گئے اور بھوک سے مرنے کا خطرہ بڑھتا گیا۔
دل دہلا دینے والا فیصلہ
ایک وقت ایسا بھی آیا جب بھوک و پیاس کی شدت سے صحت انتہائی خراب ہوگئی تو انہوں نے ایک انتہائی مشکل اور دل دہلا دینے والا فیصلہ کیا۔ انہیں خود کو زندہ رکھنے کیلئے ان افراد کی لاشوں کو کھانا پڑا جو حادثے میں مرچکے تھے یا رفتہ رفتہ مر رہے تھے، ان کیلئے یہ فیصلہ انتہائی تکلیف دہ ضرور تھا لیکن یہ اقدام ان کی بقاء کے لیے ناگزیر بھی تھا۔
امید اور عزم
تمام تر مشکلات کے باوجود بچ جانے والوں نے امید کا دامن نہیں چھوڑا۔ انہوں نے ٹوٹے ہوئے طیارے کے ملبے سے ایک عارضی پناہ گاہ بنائی اور محدود وسائل کے ساتھ خود کو گرم رکھنے اور بھوک سے بچنے کی کوشش جاری رکھی۔ ان کا عزم اور قوتِ ارادی غیر معمولی تھا اور وہ اس امید پر ایک دوسرے کو ہمت اور حوصلہ دیتے رہے کہ ایک نہ ایک دن انہیں مرنے سے بچا لیا جائے گا۔
زندگی کیسے ملی؟
حادثے کو کئی ہفتے گزر گئے اس دوران ان میں سے دو مسافر ’نینڈو پاراڈو‘ اور ’روبوٹو کانیسا‘ مدد حاصل کرنے کے لیے اٹل فیصلہ کیا اور ایک خطرناک اور دشوار گزار راستے پر نکل پڑے۔
ان کا پہاڑوں کے درمیان سفر انتہائی خطرناک تھا، لیکن ان کی ہمت اور لگن آخر کار کامیاب ہو ہی گئی۔ وہ ایک اونچی سی پہاڑی پر بنی ایک جھونپڑی تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور بالآخر 72 دنوں کی طویل جدوجہد کے بعد وہاں سے ان کو مدد ملی اور وہ امدادی ٹیم کے ساتھ ہیلی کاپٹر پر واپس آئے اور 40 میں سے 16خوش قسمت افراد زندہ بچنے میں کامیاب ہوئے۔
انسانی عزم کی علامت
یہ حیرت انگیز واقعہ انسانی طاقت کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح وہ مشکلات اور حالات کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھ سکتے ہے۔ یہ کہانی بہادری، قربانی اور اس پختہ یقین کی ہے کہ بقاء ممکن ہے لیکن اس کیلئے سخت محنت لگن اور مشکلات کا مقابلہ کرکے ہی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔
بچ جانے والوں کے تجربات آج بھی دنیا بھر کے لوگوں کو یہ باور کراتے اور یاد دلاتے ہیں کہ انسان کی قوتِ برداشت کس حد تک مضبوط ہو سکتی ہے۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟