نیوزی لینڈ کے شہر کروم ویل کے حُسن و جمال کا قصّہ
نیوزی لینڈ کی آبادی 53 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ یہاں امن و امان بھی ہے، اقتصادی خوش حالی بھی اور یہ دنیا کا وہ ملک ہے جسے قدرت نے خوب خوب نوازا ہے۔ یہاں حسین نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں اور پہاڑوں، دریاؤں، جھیلوں کے دامن میں بے پناہ کشش کے ساتھ حکومت کا حسنِ […]
نیوزی لینڈ کی آبادی 53 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ یہاں امن و امان بھی ہے، اقتصادی خوش حالی بھی اور یہ دنیا کا وہ ملک ہے جسے قدرت نے خوب خوب نوازا ہے۔ یہاں حسین نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں اور پہاڑوں، دریاؤں، جھیلوں کے دامن میں بے پناہ کشش کے ساتھ حکومت کا حسنِ انتظام بھی نیوزی لینڈ کے شہروں کو خوب صورت اور پُرسکون بناتا ہے۔
وہ ویڈیو شاید آپ نے بھی دیکھی ہو جس میں ایک خاتون سیاست داں پارلیمنٹ میں ایک بل کی کاپی پھاڑتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں اور ان کے ساتھی اپنی نشستوں پر مخصوص رقص کرنے لگتے ہیں۔ یہ واقعہ نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ کے اجلاس میں پیش آیا تھا جس کے بعد اجلاس کی کارروائی ملتوی کردی گئی تھی۔ یہ ماؤری قبائل کے اراکین تھے جنھوں نے ایک قانون کے مسوّدے کو مسترد کرتے ہوئے اس پر ووٹنگ روکنے کے لیے ہاکا رقص کیا تھا۔ خیر، یہ ایک الگ قصّہ ہے۔ ہم یہاں اپنے قارئین کے لیے اسی ملک کے ایک حسین شہر کروم ویل کا خوب صورت اور مختصر سفر نامہ نقل کررہے ہیں جو طارق محمود مرزا نے لکھا ہے۔ آسٹریلیا میں مقیم طارق صاحب کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنّف ہیں۔ اس شہر کی سیر کرتے ہوئے قارئین طارق محمود مرزا کے خوب صورت اور دل نشیں طرزِ تحریر کا لطف بھی اٹھائیں گے۔
وہ لکھتے ہیں: نیوزی لینڈ کا شہر کروم ویل (Cromwell) ان تاریخی قصبوں میں شامل ہے جنہیں اس کی ابتدائی ہیئت میں دوبارہ بنایا اور بسایا گیا۔ یہاں کشادہ سڑکیں، فٹ پاتھوں کے کناروں پر گھاس کے قطعات اور پھولوں کے پودے، جگہ جگہ دلکش وسیع و عریض پارک اور سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔ سبزہ، رنگا رنگ پھول، درختوں کی قطاریں اور فاصلے پر بنے مکانات۔ نہ یہاں جدید دور کی بڑی بڑی عمارتیں ہیں نہ گاڑیوں کا شور شرابا۔ دھوئیں اور گرد و غبار کا آزار ہے نہ انسانوں کی گہما گہمی۔
پورے قصبے پر خاموشی اور سکون کا راج ہے۔ ایسے لگتا ہے یہاں وقت رک گیا ہے۔ یہ شہر ڈیڑھ دو صدی قبل کی زندگی جی رہا ہے۔ ہم اس شہر کے خاموش حسن اور سکوت سے محظوظ ہوتے اس کے دوسرے کنارے پہنچے تو یکلخت نیلے پانیوں والی بہت بڑی جھیل ہمارے سامنے آ گئی۔ یہ جھیل اتنی وسیع ہے کہ دور پہاڑوں کے دامن تک پھیلی ہوئی ہے۔ دائیں اور بائیں طرف اس کے کنارے نظر نہیں آتے۔ ان نیلے پانیوں کے پاس گاڑی روکتے ہی بہت سی خوب صورتیاں اور دل چسپیاں ہماری منتظر تھیں۔
جھیل کے کنارے سبز گھاس کے قطعے کارپٹ کی طرح نرم اور تصویر کی طرح سندر تھے۔ ان قطعات کے کناروں پر نیلے، پیلے، سرخ، سبز اور سفید ہر رنگ کے پھولوں نے رنگوں کی برکھا برسائی ہوئی تھی۔ گھاس میں بنچ اور میزیں لگی تھیں۔ کیفے کے صحن میں رنگ برنگی خوبصورت چھتریوں تلے خوبصورت چوبی میزیں موجود تھیں۔ جن پر سیاح بیٹھے کھانے، کافی اور ماحول سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وہاں ایک ٹورسٹ انفارمیشن سنٹر بھی موجود تھا۔ ہم سنٹر کے اندر گئے تو ایک خاتون نے مسکرا کر ہمارا استقبال کیا۔ اس دلکش مگر پر وقار خاتون نے سیاحوں کی دلچسپی کے تمام مقامات کی فہرست اور نقشے وغیرہ دیے۔ میں نے پوچھا ”اگر آپ کے پاس وقت ہے تو ہمیں کروم ویل شہر، اس جھیل اور ڈیم کے بارے میں کچھ بتائیے۔ “
خاتون جس کا نام سارا تھا بولی ”آپ اتنی دور آسٹریلیا سے آئے ہیں۔ پہلے آپ بتائیں کیا پئیں گے، کافی یا چائے۔“
میں نے تکلف سے کام لینا چاہا تو وہ بولی ”آپ پریشان نہ ہوں کروم ویل کی مقامی حکومت نے سیاحوں کی خاطر مدارت کے لئے فنڈ مختص کیا ہے۔“ ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کافی لے کر سنٹر کے باہر رکھے بنچ پر آ بیٹھے۔ اس وقت سنہری دھوپ نے سماں باندھا ہوا تھا۔ ہمارے سامنے نیلے شفاف پانیوں میں چند رنگین بادبانی کشتیاں تیر رہی تھیں۔ ہماری میزبان سارا بھی کافی کا کپ تھامے ہمارے سامنے بنچ پر آ بیٹھی۔ اس نے بتایا ”اس قصبے کی بنیاد 1863 میں پڑی جب جان نامی ایک شخص نے یہاں اپنا ہٹ بنایا۔ کچھ عرصے کے بعد اس کے گھر دو جڑواں بچے میری اور جین پیدا ہوئے۔
یہ بچے اس قصبے میں پیدا ہونے والے پہلے یورپین نسل گورے بچے تھے۔ اس سے پہلے ماؤری قبائل کے کچھ لوگ یہاں غاروں وغیرہ میں رہتے تھے۔ اس کے بعد ان دونوں دریاؤں میں بہہ کر آنے والی لکڑیوں سے یہاں کاٹیج اور گھر بننے لگے۔ جب سونے کے کان کنوں کا رش تھا تو یہاں ہوٹلوں کی تعداد تیس تک پہنچ گئی تھی۔ پھر دریا کے کنارے گھروں اور گھوڑوں کے اصطبلوں میں اضافہ ہونے لگا۔
1871 ء تک کروم ویل کی آبادی 497 افراد تک پہنچ گئی جو اب 2022 میں پانچ ہزار ہے۔ جہاں تک سونے کا تعلق ہے اس دریا اور یہاں کی کانوں سے کتنا سونا نکلا اس کا درست علم تو نہیں۔ تاہم سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1873 ء تک یہاں سے 19947 اونس خالص سونا نکالا گیا۔ جہاں تک اس جھیل کا تعلق ہے تو یہ قدرتی نہیں بلکہ انسانی ہاتھوں کا کارنامہ ہے۔ جس جگہ ہم آج بیٹھے ہیں یہ نوے کی دہائی میں بسایا گیا ہے۔ جھیل جو ہمارے سامنے پھیلی ہوئی ہے اس کے نیچے پرانا کروم ویل شہر دفن ہے۔
ان تاریخی عمارتوں کو اپنی اصل شکل میں محفوظ رکھنے کے لیے حکومت، مقامی رضاکاروں اور ہنرمندوں نے انتہائی محنت اور جانفشانی سے کام کیا۔ کچھ عمارتیں پوری کی پوری اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کی گئیں اور کچھ کو اسی میٹریل اور اسی نمونے کے تحت دوبارہ اسی شکل میں بنا دیا گیا۔ یوں پورا شہر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوا۔ نئے ڈیم سے نہ صرف یہ دو دریا آپس میں مل گئے بلکہ اس کے ساتھ اس نئی جھیل نے جنم لیا۔ جس نے 1980 ء سے پہلے کا کروم ویل دیکھا تھا اب دیکھے تو حیران رہ جائے گا۔ اسے لگے گا کہ جنات نے پورا شہر اٹھا کر دوسری جگہ پر رکھ دیا ہے۔ اسی طرح اس وسیع و عریض جھیل کو دیکھ کر کوئی یقین نہیں کر سکتا کہ انسانی ہاتھوں نے اتنا بڑا کام انجام دیا ہے۔ یوں نیوزی لینڈ کی حکومت اور اس کے شہریوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ ”
میں نے پوچھا ”چینی کان کنوں کی آمد کا سلسلہ کب شروع ہوا اور ان کان کنوں کی نیوزی لینڈ میں قانونی اور سماجی حیثیت کیا تھی؟“
سارا نے بتایا ”امریکہ اور آسٹریلیا کی نسبت نیوزی لینڈ میں چینیوں کی آمد دیر سے شروع ہوئی۔ جب یورپین کان کن کمپنیاں یہاں سے واپس چلی گئیں تو بچا کھچا سونا ڈھونڈنے کی مشکل مہم کے لیے چینیوں کو بلایا گیا۔ یہ زیادہ تر چین کے جنوبی حصے کو رنگ ٹونگ سے آئے تھے کیونکہ وہاں سب سے زیادہ غربت تھی۔ 1865 سے 1900 ء تک چینی وزٹ ویزے پر مزدوری کے لیے نیوزی لینڈ آتے رہے۔ اس دوران میں ان چینیوں کی زندگی کافی مشکل تھی۔“ سارہ ہر سوال کا تسلی سے جواب دیتی تھی جیسے پروفیسر ہو۔ جب یہی بات میں نے کہی تو وہ ہنس کر کہنے لگی ”آپ کا اندازہ غلط نہیں ہے۔ میں ریٹائرڈ پروفیسر ہوں۔ وقت گزاری کے لئے یہ جاب کر رہی ہوں۔ “
سارا نے دوسری مرتبہ ہمیں حیرانی سے دو چار کیا۔ وہ یونیورسٹی پروفیسر تھی اور تاریخ پڑھاتی رہی تھی۔ اب وہ اس چھوٹے سے قصبے کے اس چھوٹے سے دفتر میں کام کرتی تھی جہاں صفائی ستھرائی سمیت تمام کام اس کے ذمہ تھے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ یہ نیوزی لینڈ ہے جہاں اسٹیٹس، اسٹینڈرڈ اور عہدوں اور کرسیوں کی نہیں بلکہ اخلاق اور محنت کی قدر کی جاتی ہے۔ یہاں وزیر اعظم بھی اپنا دفتر خود صاف کرتا ہے۔ اپنے گھر کا سارا کام خود کرتا ہے۔ اپنی گاڑی خود دھوتا ہے۔ اپنے گھر کی گھاس بھی خود کاٹتا ہے۔ دفتر میں اپنی چائے بھی خود بناتا ہے کیونکہ اس ملک میں چپراسی اور کلینر نہیں ہوتے۔ یہاں ڈرائیور اور خانساماں رکھنے کا بھی رواج نہیں ہے کیونکہ ان کی تنخواہ ادا کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ یہاں امیر اور غریب کے طرز حیات اور معیار زندگی میں فرق بہت کم رہ جاتا ہے۔ اگر تھوڑا بہت فرق ہو بھی تو کوئی امیر اپنی امارت کا رعب نہیں جما سکتا ہے اور نہ کم آمدنی والا کسی کے رعب میں آتا ہے۔ روزمرہ زندگی میں یہاں سب برابر ہیں۔ یہ اس معاشرے کی خصوصیت اور یہی اس کا طرۂ امتیاز ہے۔
آپ کا ردعمل کیا ہے؟